افغانستان، دائمی قیامِ امن کے لیے طالبان سے گذارشات

پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان اور بیس سالوں سے شمالی اور جنوبی پختون خوا ’’پراکسی‘‘ اور تزویراتی جنگوں کی آگ میں جلتا رہا۔ 1979ء سے 1989ء تک کی سوویت افغان جنگ میں دو ملین لوگ مارے گئے اور چھے ملین کے قریب لوگ ملک بدر ہوکر مہاجر بن گئے۔ 1989ء میں روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد ’’افغان مجاہدین‘‘ نے مل کر ڈاکٹر نجیب اللہ کو معزول ہونے پر مجبور کیا۔ ڈاکٹر نجیب کے جانے کے بعد مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان تخت کابل کے حصول کے لیے بد ترین خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں افغانستان کو ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی خانہ جنگی کے دوران میں 1994ء میں طالبان ایک بڑی عسکری قوت کے طور پر نمودار ہوئے۔ طالبان نے تمام دوسرے متحارب گروہوں کو زیر کرکے 1996ء میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں ’’اِمارتِ اسلامی افغانستان‘‘ قائم کی۔
سولہ سال کی جنگ و جدل اور خانہ جنگی کے بعد افغانستان کو چند سالوں کے لیے امن تو نصیب ہوا لیکن یہ خوف اور جبر سے قائم طالبانی امن تھا جس کے دوران میں طالبان نے افغانستان کو مہذب دنیا سے الگ کردیا اور اسے عالمی برادری میں ’’شودر‘‘ کا درجہ دے دیا۔ طالبان نے تہذیب و تمدن اور فنونِ لطیفہ کے ہر نقش کو مٹانے کی پالیسی اپنائی۔ ان کے پنج سالہ دورِ مطلق العنانیت میں نہ کوئی اسکول بنا، نہ کوئی ا سپتال، نہ کوئی سڑک تعمیر ہوئی اور نہ کوئی وسیلۂ روزگار ہی سامنے آیا۔ بس شریعت کے نام پر سزاؤں کی بھرمار تھی۔ غلط سِم کارڈ کے استعمال پر سزا، داڑھی کی کم مقدار پر سزا، سرِعام مرد و زن کو کوڑے اور مار پیٹ ایک معمول بن گیا تھا۔ مختصر یہ کہ یہ تمام افغانوں کے انسانی وقار کے لیے بالعموم اور خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے بالخصوص افغانستان کی تاریخ کا ایک بدترین اور تاریک دور تھا۔
نائن الیون کے بعد جب افغان طالبان کی ’’اسلامی آمریت‘‘ ختم ہوئی، تو ایک طرح سے ایک نئے سیاسی، جمہوری اور کثیر القومی ملی دور کا آغازہوا۔ پچھلے بیس سالوں میں طالبان کے مسلسل حملوں کے باوجود افغانستان نے بہت ترقی کی ہے۔ آج 9 ملین بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں جس میں 3.5 ملین لڑکیاں ہیں۔ دو لاکھ کے قریب لڑکے اور ایک لاکھ سے زیادہ لڑکیاں یونی ورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ سیکڑوں اسپتال بنے ہیں۔ شاہ راہیں بنی ہیں۔ زرعی پیداوار بڑھانے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیم بنے ہیں اور آج کا افغانستان افغانوں کے کسی قاتل جنگ جو کے نام سے نہیں بلکہ افغانستان قومی کرکٹ ٹیم کے ستاروں راشد خان، محمد نبی اور مجیب الرحمان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ آج وہاں جنگ اور جہاد کے شہیدوں سے زیادہ امن اور ترقی پر مر مٹنے والے ناکامورا، نعمت روان، فرشتہ کوہستانی اور صحافی ملالہ میوند جیسے شہیدوں کا احترام کیا جاتا ہے۔
پچھلے بیس سالوں میں تو افغانستان یک سر تبدیل ہوا ہے، مگر طالبان میں صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ وہ دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ تبدیل ہوگئے ہیں۔ وہ محتاط زبان میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی محدود اور مشروط تعلیم کے حق میں ہیں اور اپنی شرائط پر ’’این جی اُوز‘‘ کو بھی کام کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہیں۔ وہ امریکی افواج سمیت دنیا بھر کے لیے شیروشکر ہوگئے ہیں۔ اگر تلخ اور تند و ترش ہیں، تو صرف اپنے ہم وطن افغانوں کے لیے۔ وہ اپنے مقابلے میں بہت بڑی قوت امریکہ کے ساتھ تو اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے دیرینہ سپانسر القاعدہ سے لاتعلق رہیں گے، لیکن اپنی عسکری قوت کے زعم میں اپنے وطن کے آئین، قانون اور ریاست کے جمہوری نظام کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے سخت مؤقف اور مشکوک رویے کی وجہ سے آج ایک بار پھر افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ خدا نخواستہ اور صد بار خدا نخواستہ اگر طالبان اور ان کے سہولت کار ایک بار پھر اپنی تاریخ دہرا کر دہشت اور طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر قابض ہوگئے، تو اس صورت میں میرے اخون زادہ ہیبت اللہ اور طالبان شورا سے چند سوالات ہیں۔ امید ہے میرے ان سادہ مگر امن و آشتی پر مشتمل سوالات پر برانگیختہ ہونے کی بجائے وہ غور و فکر کو ترجیح دیں گے۔
معصوم افغان شہریوں کی بے تحاشا خوں ریزی کے بعد اگر آپ اپنا سنی، پشتون طالبانی فسطائیت قائم کر بھی لیں گے، تو ایسی اسلامی اِمارت کب تک چلے گی؟ آپ کتنے سالوں تک کثیر النسل اور کثیر المذاہب افغانستان کے تاجک، ازبک اور ہزارہ کو غلام بناکر رکھ سکیں گے؟
آپ کی ’’نئی اِمارتِ اسلامی‘‘ آپ کی ’’پرانی اِمارتِ اسلامی‘‘ سے کتنی مختلف ہوگی؟ آپ موجودہ نظام کو لپیٹ کر اپنی طرف سے ایسا کون سا اسلام متعارف کرائیں گے جو اَب وہاں نہیں ہے؟ میری نظر میں تو ’’اسلامک ری پبلک آف افغانستان‘‘ ہی معتدل اسلام کا ایک اسلامی ملک ہے۔
تو پھر کیا ایک بار پھر آپ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاکر، عورتوں کی نقل و حرکت کو محرم مرد سے مشروط کرکے، موسیقی اور دوسرے فنونِ لطیفہ کو ممنوع قرار دے کر اور بامیان کے بدھا کے رہے سہے مجسموں پر چڑھائی کرکے امارت اسلامی کے جھنڈے گاڑ دیں گے؟
کیا عورتوں کو من حیث الجنس افغانستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی سے منفی کرکے آپ افغانستان کو امن، ترقی اور خوش حالی سے ہم کنار کرسکتے ہیں؟ کیا آپ کے مردوں والا آدھا افغانستان باقی آدھے افغانستان یعنی عورتوں کو قابل قبول ہوگا؟ کیا ایک ایسا افغانستان عالمی برادری یا اقوامِ متحدہ کا باوقار ممبر بن سکے گا؟
اگر درجِ بالا سوالات کا جواب نہیں میں ہے، تو پھر کابل پر قابض ہوکر آپ افغانستان کو نیا کیا دے سکتے ہیں؟ فی الوقت تو آپ دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ آپ کو حامد کرزئی، اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ والا افغانستان قبول ہے اور آپ اسی افغانستان میں بلاشرکتِ غیرے ذاتی اقتدار چاہتے ہیں۔ مگر آپ کی یہ خواہش زمینی حقائق اور عالمی سیاسی صورتِ حال سے مطابقت نہیں رکھتی۔ تو پھر کیوں نہ آپ افغانستان کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے اپنی افغانیت اور اسلامیت کی خاطر اپنے افغان اور مسلمان بہن بھائیوں سے صلح کرکے دائمی امن اور خوش حالی کی طرف قدم بڑھائیں۔ کیوں نہ آپ ہمیشہ کے لیے ہتھیار رکھ کر خود بھی قلم اٹھائیں اور افغان بچوں اور بچیوں کے ہاتھوں میں بھی تھمائیں۔ کیوں کہ غیرملکی افواج کے اخراج کے اعلان کے بعد آپ کی مسلح جد و جہد یا جہاد کا کسی بھی صورت میں جواز باقی نہیں رہتا بلکہ میں تو پاکستان کے تمام اسلامی مسالک، مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، وزارتِ عدلیہ افغانستان، علما شورا افغانستان اور ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے اپیل کروں گا کہ وہ سب متفقہ طور پر علی الاعلان یہ فتوا دیں کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد اب افغانستان میں جہاد کے نام پر قتل و قتال قطعاً حرام ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے کوئی بھی مسلح جد و جہد عین فساد ہے۔ امید ہے کہ طالبان بھی ایسے فتوا کی حمایت کریں گے۔ کیوں کہ وہ امریکہ سے امن معاہدے کے بعد افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
طالبان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ گولی چلانے اور حکومت چلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کے افغانستان کا سب سے بڑا وسیلہ اور اثاثہ اس کے تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان ہیں۔ خدا نخواستہ اگر طالبان دائمی امن اور صلح کی طرف جانے کی بجائے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کریں گے، تو ایسی صورتِ حال میں ہزاروں تعلیم یافتہ مرد اور خواتین ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور یوں ایک بار پھر افغانستان اپنے معماروں سے محروم ہوجائے گا۔
اپنے ملک پاکستان کے مقتدر حلقوں سے بھی یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ آپ افغان امن عمل میں شفافیت کے ساتھ کلیدی کردار ادا کریں اور ایک پُرامن، آزاد اور خوش حال افغانستان کا ساتھ دیں۔ اگر آپ کی غلط تزویراتی پالیسی کی وجہ سے افغانستان پر ایک بار پھر طالبانی آمریت مسلط ہوجائے، تو یہ تمام پڑوسی ممالک اور خصوصاً پاکستان کے امن اور ترقی کے لیے بہت نقصان دہ اور خطرناک ہوگا۔ مَیں نے بیسویں صدی کے آخری عشرے کے آخری سالوں میں سوات کی دیواروں پر یہ نعرہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ ’’دو ملک، دو حکمران، ملا عمر، فضل الرحمان۔‘‘ اگرچہ مرحوم ملا عمر کی طرزِ خلافت اور مولانا فضل الرحمان کی طرزِ سیاست میں بنیادی فرق ہے۔ اوالذکر طاقت کے بل بوتے پر حکمران رہے جب کہ مولانا صاحب تین نسلوں سے پاکستان کے جمہوری نظام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ پڑوس کے سیاسی اثرات سے تا دیر محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ رجعت پسندی اور انتہاپسندی کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔
ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ شیعہ ایران کے متوازی سنی طالبانی افغانستان کا قیام اس خطے کے امن کو مستقل طور پر فرقہ ورایت کی سولی چڑھا دے گا۔ آج موقع ہے کہ افغانستان کے تمام افغان اور خصوصاً طالبان رنگ، نسل، مذہب اور مخصوص عقیدے کے امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر سب سے پہلے افغانستان کا سوچیں۔ تاریخ دہرانے کی بجائے ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ جس خلوصِ نیت سے افغان صدر اشرف غنی نے ذاتی اقتدار سے بالاتر ہوکر افغانستان کے دائمی امن اور جمہوریت کے لیے طالبان سمیت تمام پڑوسیوں کو غیرمشروط دعوت دی ہے، طالبان اور پڑوسی ممالک اسے جذبۂ خلوص اور شفافیت کے ساتھ قبول کرکے آگے بڑھیں۔
آخر میں طالبان سے دست بستہ گذارش ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کریں۔ افغانستان کے سب سے بڑے خیر خواہ افغان عوام ہی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے اور نسل سے ہو، ان کے ساتھ مل بیٹھیں۔ ایک چھوٹے، محدود، منقسم، سخت گیر اور طفیلی افغانستان کی بجائے ایک بڑے، آزاد، خود مختار، متحد اور خوش حال افغانستان کے لیے ملی وحدت پیدا کریں۔ ایک ایسا افغانستان جو ہر رنگ، نسل، مذہب، زبان اور جنسی امتیاز کے بغیر سب کے لیے قابلِ فخر ہو۔
یہ تاریخی موقع صدر اشرف غنی اور ملا ہیبت اللہ اخون زادہ کو ملا ہے کہ وہ افغانستان میں دو صدیوں پر محیط پچھلے چالیس سالوں سے جاری جنگ اور خانہ جنگی کا خاتمہ کریں اور افغانستان کو مستقل امن اور خوش حالی کا تحفہ دیں۔ ایسا ہوجانا 21ویں صدی کا سب بڑا واقعہ ہوگا۔ جس کے لیے اشرف غنی اور ملا ہیبت اللہ نوبیل پرائز برائے امن کے حق دار ہوں گے۔ اس حوالے سے زلمے خلیل زاد اور جنرل باجوہ کی مثبت سہولت کاری کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ کرے افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے، آمین!
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔