عید الفطر اور عیدالاضحی اللہ تعالا کی عبادت کے ساتھ مسلمانوں کے لیے دو خوشیوں کے تہوار بھی ہیں۔ قیامت تک آنے والے تمام جن و انس کے نبی حضرت محمدؐ کے واضح فرمان کی روشنی میں ان ایام اور ہر ماہ کی یکم تاریخ کی تحدید 29 تاریخ کو چاند کی رویت یا عدم رویت پر کی جاتی ہے، جس پر مسلمانوں کے تمام مسلکوں کا اتفاق ابتدائے اسلام سے ہی چلا آ رہا ہے۔ سائنسی تحقیق اور اس کی ایجادات سے ہمیں کوئی نفرت نہیں، مگر چاند کی یکم تاریخ طے کرنے کے لیے محسن انسانیتؐ کی تعلیمات کی وجہ سے ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم دنیاوی اغراض کے لیے اپنے نبیؐ کے واضح فرمان میں کوئی توجیہ یا تاویل کریں۔
شریعتِ اسلامیہ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ مہینے کی 29 تاریخ کو چاند نظر آنے پر اگلے ماہ کی پہلی تاریخ، ورنہ مہینا 30 دن کا شمار کیا جائے۔ رمضان اور عید کے تعلق سے ہمارے نبیؐ کی واضح تعلیمات حدیث کی ہر مشہور و معروف کتاب میں موجود ہیں۔ تاجدارِ مدینہؐ امت محمدیہ کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، ورنہ مہینا تیس دن کا شمار کرو۔
خاتم النبینؐ قیامت تک آنے والے جن و انس کے نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ لہٰذا رسولؐ کا مذکورہ فرمان موجودہ دور کے دو ارب مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ اسی وجہ سے آج تک علمائے امت کا اتفاق ہے کہ رمضان یا عیدالفطر کے ایام کی تحدید چاند کی رویت یا عدم رویت کی بنیاد پر کی جائے گی۔
سعودی حکومت نے سائنسی تحقیق اور موسمِ فلکیات کے اندازں کے مطابق چاند کی 29 یا 30 تاریخ طے کرکے عرصۂ دراز سے ایک کیلنڈر ’’تقویم ام القری‘‘ کے نام سے اپنے ملک میں رائج کررکھا ہے، لیکن یہ کیلنڈر حقیقت میں دفتری کارروائی تک محدود رہتا ہے۔ سعودی عرب میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا حقیقی فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے جس کی روشنی میں روزے، عید الفطر، حج اور عید الاضحی وغیرہ عبادتیں کی جاتی ہیں۔ اس تعلق سے سعودی عرب میں کل 6 کمیٹیاں ہیں۔ ہر کمیٹی میں امارت یعنی حکومت، مجلس قضا اعلا یعنی علمائے کرام اور موسمِ فلکیات کے نمائندے ہر ماہ کی 29 تاریخ کو ملک کے مختلف حصوں میں چاند دیکھنے اور شہادت قبول کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں تمام اخباروں میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اعلان بھی شائع ہوتا ہے، جس میں عوام سے 29 تاریخ کو چاند دیکھنے اور چاند نظر آنے پر اطلاع دینے کی درخواست بھی کی جاتی ہے۔ ان چھے کمیٹیوں کا رابطہ سینٹرل کمیٹی سے رہتا ہے جو عرب ممالک کی دیگر رویت ہلال کمیٹیوں سے رابطہ میں رہتی ہیں۔ چاند نظر آنے کی صورت میں شہادت کے قبول ہونے کے بعد سعودی عرب کی سپریم کورٹ چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے۔
یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ چاند کے طلوع ہونے کی جگہ یعنی مطلع مختلف ہوتا ہے۔ اس وجہ سے برصغیر اور خلیجی ممالک میں عمومی طور پر چاند کی تاریخ میں ایک دن کا فرق رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ فرق دو دن کا بھی ہوجاتا ہے، لیکن ایسا عموماً نہیں ہوتا کہ پوری دنیا میں چاند کی ایک ہی تاریخ ہو۔ حتی کہ آج کی سائنسی تحقیق کے مطابق بھی پوری دنیا میں ایک ہی دن چاند نظر نہیں آتا، یعنی سائنسی اعتبار سے بھی شمسی کیلنڈر کی طرح پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ ممکن نہیں۔
امسال (1442ہجری) بھی طویل عرصہ سے جاری معمول کے مطابق ہند، پاک اور بر صغیر کے دیگر ممالک سے ایک روز پہلے خلیجی ممالک میں ماہِ رمضان شروع ہوا اور حضور اکرمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں 29 رمضان کو چاند کی رویت نہ ہونے پر 30 روزے مکمل کرنے کے بعد 13 مئی بروزِ جمعرات کو عید الفطر منائی گئی۔ ہندوستان کے صوبہ کیرلا اور کرناٹک اور تمل ناڈو کے کیرلا سے متصل بعض اضلاع میں وہاں رائج نظام کے تحت رمضان کی ابتدا سعودی عرب کے مطابق ہندوستان کے دیگر صوبوں سے ایک دن قبل ہوئی اور 30 روزے مکمل ہونے کے بعد وہاں کے باشندوں نے سعودی عرب کے مطابق 13 مئی کو عید الفطر منائی۔ کیرلا کے باشندے 29 تاریخ کو چاند دیکھنے کے بجائے خلیجی ممالک میں موجود اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو سعودی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی جان کاری کے لیے فون کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیرلا کے لوگ بڑی تعداد میں خلیجی ممالک میں بغرض معاش مقیم ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی علاقہ کا یہ عمل اس وقت میرا موضوع بحث نہیں۔ کیوں کہ وہاں چاند کی یکم تاریخ کے لیے سعودی حکومت کے فیصلہ کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
امسال پاکستان میں بھی برصغیر کے دیگر ممالک کی طرح ماہِ مبارک کی ابتدا سعودی عرب کے ایک روز بعد ہوئی۔ 29 رمضان کو کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے بڑے بڑے علاقوں میں کسی ایک جگہ سے بھی چاند کی رویت کی کوئی خبر نہیں ملی۔ ہاں! پشاور وغیرہ کے بعض علاقوں سے موصول شہادتوں کی بنیاد پر تقریباً رات 12 بجے فیصلہ کیا گیا کہ عید الفطر 13 مئی کو منائی جائے گی۔ اس اعلان کے خلاف شور اور شرابا بھی کافی مچا، مگرعلمائے کرام نے یہ کہہ کر اس ہنگامہ پر قابو پالیا کہ اب اس موضوع پر مباحثہ جاری نہ رکھا جائے، باوجود یہ کہ امسال عید الفطر کے چاند کے اعلان میں غلطی کے امکانات زیادہ ہیں۔ جموں وکشمیر میں سابقہ روایات کے مطابق پاکستان کے ساتھ 13 مئی کو ہی عید الفطر منائی گئی۔
ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں تمام مسلکوں کے اتفاق رائے سے کسی بھی جگہ سے چاند کی رویت نہ ملنے کی وجہ سے 30 روزوں کے بعد 14 مئی کو عید الفطر منائی گئی۔ البتہ ہندوستان میں اترپردیش کے قصبہ گھوسی (ضلع مؤ) میں چار افراد کی شہادت کی بنیاد پر دارالعلوم امجدیہ کے مہتمم مولانا ضیاء المصطفیٰ قادری صاحب نے گھوسی اور مضافات کے لیے چاند کی رویت کا اعلان کردیا تھا، جس کو ہندوستان کی رویت ہلال کمیٹیوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ جب گھوسی کا مطلع صاف تھا، تو عید الفطر کی چاند کی رویت کے لیے صرف چار افراد کی شہادت قابلِ قبول نہیں بلکہ بڑی تعداد کا چاند دیکھنا ضروری ہے۔ حتی کہ گھوسی کے قریب اہل السنہ والجماعت کی بڑی علمی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتیان کرام نے بھی گھوسی کے چار افراد کی شہادتوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس تعلق سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتی نظام الدین رضوی صاحب کی وضاحت درجِ ذیل لنک کے ذریعہ سنی جاسکتی ہے:
youtu.be/KP7xQUAUXZ8
مشرقی چمپارن سے بھی ایک خبر چاند کی رویت سے متعلق وائرل ہوئی تھی مگر بہت جلدی اُن کی طرف سے ایک وضاحتی وےڈیو اور پیغام سوشل مےڈیا پر شیئر کردیا گیا کہ مشرقی چمپارن میں چاند کی رویت کے متعلق سوشل مےڈیا پر گردش کرنے والی خبر غلط ہے۔
دارالعلوم امجدیہ گھوسی، ضلع مؤ میں چار افراد کی شہادت کے بعد بنارس اور الہ آبادکے بعض مفتیانِ کرام نے بھی 13 مئی کو عید ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ غرض یہ کہ گھوسی کے علاوہ پورے ہندوستان میں کہیں بھی چاند کی رویت کی تصدیق نہ ہوسکی۔ چناں چہ ہندوستان میں تمام مسلکوں کے مفتیانِ عظام اور علمائے کرام نے شریعتِ اسلامیہ کے اصول پر عمل کرکے سمجھ داری کا مظاہرہ کرکے 13 مئی کو 30 رمضان اور 14 مئی کو یکم شوال کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا ہمیں اس موقع پر اتحاد واتفاق کا عملی مظاہرہ پیش کرکے علمائے کرام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں جہاں علمائے کرام یا ان کی سرپرستی میں چلنے والی رویت ہلال کمیٹیوں کو قانونی حیثیت سے بہت زیادہ اختیارات نہیں، لیکن پھر بھی پورے ہندوستان میں ایک ہی دن عید الفطر منائی گئی۔ یقینا ماضی میں ایک ہی علاقہ میں دو دو عیدیں منائی گئی ہیں، جس پر ہمیں بھی افسوس ہے، مگر چند سالوں سے اللہ کے فضل وکرم سے ایسا اختلاف پیش نہیں آیاہے۔
14مئی بروز جمعہ کا انقلاب جب میں نے پڑھنا شروع کیا، تو حسبِ معمول میری نظر انقلاب اخبار کے اےڈیٹر جناب شکیل شمسی صاحب کے اداریہ (دو عیدیں، دو چاند اور مسلمانانِ ہند) پر پڑی، جس کے پڑھنے کے بعد مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ جناب شکیل شمسی صاحب نے عیدالفطر کے دن بھی محبتوں، خوشیوں، مسرتوں، اللہ کی نعمتوں اور امت میں اتفاق واتحاد کے بجائے ہندوستان میں چاند پر معمولی اختلاف کو اس طرح ذکر کیا کہ زمینی حقائق سے ناواقف شخص اگر اس اداریہ کو پڑھے، تو اسے لگے گا کہ ہندوستان میں جگہ جگہ دو دو عیدیں منائی گئیں۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ مشرقی چمپارن سے آئی خبر جھوٹی تھی، جس کی تردید اسی وقت سوشل مےڈیا پر بڑی تیزی سے گردش کرنے لگی تھی اور مجھے پورا یقین ہے کہ شکیل شمسی صاحب جیسی شخصیت کے پاس وہ تردید ضرور پہنچی ہوگی، مگر اس کے باوجودہ انہوں نے اپنے اداریہ میں مشرقی چمپارن میں چاند کی رویت کا ذکر کیا۔ گھوسی، بنارس اور الہ آباد میں زیادہ سے زیادہ دو ہندسوں پر مشتمل (یعنی 100 سے کم) مساجد میں عید الفطر کی نماز 13 مئی کو ادا کی گئی، باقی پورے ہندوستان کی تمام مساجد میں نماز عید الفطر 14 مئی بروز جمعہ ادا کی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 25 کروڑ اور مساجد کی تعداد تقریباً 4 لاکھ ہے۔
جناب شکیل شمسی صاحب نے اپنے اداریہ میں مسلمانانِ ہند کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سید البشر وسید الانبیاؐکی چاند سے متعلق واضح تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر ہندؤوں کی طرح اپنے تہواروں کی تاریخ پہلے سے طے کرلیں۔ نیز انہوں نے پریاگ راج (الہ آباد) کے اپنے ایک غیر مسلم دوست اتم شرما کی بات (پریاگ راج میں کچھ لوگوں نے 13مئی کو عید منائی ، مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے رات بعد اماوس تھی، 13مئی کو بھارتیہ کیلنڈر کے حساب سے دوج تھا، اس حساب سے اس روز عید کا چاند نکلنا چاہیے اور عید 14 مئی کو منائی جانی چاہیے تھی) ذکر کرنے کے بعد خود تحریر کیا کہ (اتم شرما کی) ان باتوں کو کون قبول کرے گا؟ ہم تو اپنے مولوی، اپنے قاضی، اپنے مسلک، اپنے فرقے اور اپنی چاند کمیٹی کی بات ہی مانیں گے؟ غرض یہ کہ جناب شکیل شمسی صاحب مسلمانانِ ہند کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ علما اور مفتیانِ کرام کی قرآن وحدیث کی روشنی میں رائے نہ مان کر وہ بات تسلیم کریں جو ان کے ایک غیر مسلم دوست ’’اتم شرما‘‘ نے اپنے مذہب وتجربات کی بنیا د پر پیش کی ہے۔
شکیل شمسی نے اپنے اداریہ میں یہ بھی تحریر کیا کہ سائنس کے اس دور میں جب یہ بتایا جاسکتا ہے کہ چاند اگلے سال آج کے دن کتنے بجے نکلے گا اور کتنے بجے غروب ہوگا، مگر ہم ہیں کہ عینی شاہدوں کی تلاش میں ہیں۔
اس تعلق سے عرض ہے کہ انہیں اس موضوع پر مزید مطالعہ کی ضرورت ہے کہ آج بھی سائنسی اعتبار سے ہر ماہ ہر جگہ 29ویں تاریخ کو چاند نظر آنے یا نہ آنے کی سو فیصد تحقیق نہیں ہوسکتی بلکہ سائنسی اعتبار سے بعض علاقوں میں چاند نظر آنے اور بعض علاقوں میں چاند نظر نہ آنے کے یقین کے باوجود ہر ماہ دنیا میں بعض علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں 29ویں تاریخ کو چاند کی رویت ہوبھی سکتی ہے اور نہ بھی۔ نیز 29 ویں تاریخ کا چاند ہر جگہ نظر نہیں آتا۔ سائنسی اعتبار سے بھی پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ ممکن نہیں اور شرعی اعتبار سے بھی پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ مطلوب نہیں۔ لہٰذا بعض حضرات کا یہ کہنا کہ دنیا میں ایک ہی چاند کی تاریخ ہونی چاہیے، قابلِ تسلیم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کا ’’تقویم ام القری‘‘ جو دنیا میں چاند کی تاریخ کے لیے تیار کیا گیا سب سے معتمد کیلنڈر ہے اور وہاں چاند کی رویت یا عدم رویت کے اعلان کے وقت ماہرینِ فلکیات کی دخل اندازی بھی رہتی ہے، اس کے باوجود بسا اوقات سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد چاند کی حقیقی تاریخ کیلنڈر سے مختلف ہوجاتی ہے۔
امسال ماہِ شعبان کی ابتدا کے لیے بھی ایسا ہی ہوا کہ کیلنڈر کے مطابق 29 رجب کے بعد یکم شعبان تھی، مگر کسی جگہ سے رویت کی خبر نہ ملنے کی وجہ سے سعودی سپریم کورٹ کا فیصلہ کیلنڈر سے مختلف ہوا۔ سعودی عرب میں میرے بیس سال کے قیام کے دوران میں بیسیوں مرتبہ چاند کی حقیقی تاریخ کیلنڈر سے مختلف رہی، حتی کہ حج بھی کیلنڈر کی تاریخ سے ایک روز قبل یا بعد ہوا۔ حالاں کہ حج کی تاریخ کیلنڈر سے مختلف ہونے پر فلائٹ اور ہوٹل کی بکنگ وغیرہ کے انتظام میں کافی دشواری سامنے آتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ آخری نبیؐ کے واضح فرمان کی موجودگی میں عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے سرِ تسلیم خم کرنے ہی میں سب کی بھلائی ہے۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔