ہر سال 8 مئی کو ساری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا ایک خاص پس منظر ہے لیکن جہاں تک مذہبِ اسلام کا تعلق ہے، تو اس میں والدین خصوصاً ماں کے احترام اور تقدس کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالا قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: ’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے ساتھ ان میں کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں، تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی کے ساتھ ان سے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے شفقت کے ساتھ بچپن میں مجھے پالا تھا۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل، آیات نمبر 24,23)
سرکارِ دو عالمؐ نے باپ کی نسبت ماں کو تین گنا احترام دینے کا حکم دیا ہے۔ قرآن بھی ماں کو بچے کے ساتھ مشقت اور رحم کے سلسلے میں کہتا ہے کہ ’’یہ ماں ہی ہے جو بچے کو خاص مدت تک پیٹ میں لیے پھرتی ہے اور جنم کے بعد دو سال تک دودھ پلاکر پالتی ہے‘‘۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پڑھے لکھے بیٹے بھی ماں کے تقدس سے بے خبر ہوتے ہیں اور ماں کے ادب و احترام کا پورا خیال نہیں رکھتے۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ بلکہ ایک معاشرہ المیہ بھی ہے کہ شادی کے بعد بیٹے، بیوی کو ماں پر ترجیح دیتے ہیں اور بعض اوقات گستاخی اور بے ادبی پر اُتر آتے ہیں۔
خلیفۂ ثانی عمرِ فاروق ؓ کو ایک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔ آپؓ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی کا بھرا ہوا مشکیزہ لایا جائے۔ پھر آپؓ نے اس بھرے ہوئے مشکیزے کو اس شخص کی پیٹ پر خوب کس کر باندھا اور کہا کہ تمہیں اس مشکیزے کے ساتھ چلنا پھرنا بھی ہے، کھانا پینا بھی ہے اور سونا جاگنا بھی، یعنی ہمہ وقت یہ مشکیزہ تمہارے پیٹ کے ساتھ بندھا رہا ہوگا۔ ایک دن گزرا ہی ہوگا کہ وہ شخص دربارِ خلافت میں حاضر ہوا کہ اس کو معاف کیا جائے اور وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ یہ اس دوران میں نہ تو ٹھیک طرح سوسکا، نہ بیٹھ سکا اور نہ چل پھر سکا۔ دراصل سیدنا عمر فاروق ؓ نے اس کی ماں کی طرف اشارہ کرکے اُسے یہ دکھانا تھا کہ اس نے تجھے پیٹ کے باہر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر اتنے ہی وزن کے ساتھ نو ماہ تک اٹھائے رکھا۔ نہ وہ ٹھیک طرح سو سکتی تھی، نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی اور پھر اسے موت کی سی اذیت کے ساتھ تجھے جنم دیا اور دو سال تک تجھے دودھ پلاتی رہتی اور جب تو اپنے پاؤں پر کھڑا رہا، تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے تیرے منھ سے گالیاں نکلتی ہیں۔ خبردار! اگر آئندہ یہ شکایت موصول ہوئی تو نشان عبرت بنادوں گا۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور وہ اُن کی خدمت اور احترام کرکے اُن کی دعائیں لیتے ہیں اور دین و دنیا کی بھلائی پاتے ہیں۔ ہم اور آپ عموماً ایسے بیٹوں کو دیکھتے ہیں جو بیویوں کے کہنے پر اپنی ماؤں کو مارتے پیٹتے ہیں اور گھروں سے بھی نکالتے ہیں۔ ہم نے بچشم خود ایسے بیٹوں کو دیکھا جو بیویوں کے کہنے پر اپنی ماؤں کو برا بھلا کہتے اور ان کو مارا کرتے۔
ہم نے خود ان کا انجام بھی دیکھا جو زندگی میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے رہے۔ ایک بیٹا جو اپنی ماں کو مارتا پیٹتا۔ وقتِ آخر اس کا انجام نہایت عبرت ناک تھا۔ چار ماہ تک وہ نزع کی حالت میں رہا۔ آکسیجن کے ذریعے اسے زندہ رکھا گیا اور آخر کار فوت ہوا۔
فاعتبرو یا الی الالباب!
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔