کتاب ’’وادیِ سوات میں جو ہم پر گزری‘‘ کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ سوات میں شورش کے دوران جرأت و بے باکی سے لکھے گئے اداریے ہے جب کہ دوسرا حصہ ان کالموں پر مشتمل ہے جو سوات میں بد ترین لاقانونیت اور دہشت و وحشت کی فضا میں جرأت مندانہ انداز میں لکھے گئے تھے۔
اداریوں میں ’’طالبان‘‘ اور ’’محافظین‘‘ کے ظلم و زیادتی پر گرفت کی گئی ہے اور مقہور اہلِ سوات کی فریاد اور ان کی بے بسی اور مظلومیت کو وطن اور اہلِ وطن کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ اداریے کیا ہیں، سوات میں شورش کے دوران طالبانی اور عسکری محاصرے کے روزنامچے ہیں جو بقولِ استاد محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب ’’فضل ربی راہیؔ کے روزنامچے دل گداز مرثیے ہیں جو انہوں نے لہو میں قلم ڈبو کر لکھے ہیں۔‘‘
استاد محترم کتاب پر لکھے گئے اپنے تاثرات میں مزید لکھتے ہیں کہ’’اس کتاب کے مرکزی خیال کو اگر میں صرف ایک جملے میں سمیٹنا چاہوں، تو یوں کہوں گا کہ’’ریاست اگر ماں جیسی ہے، تو پھر وہ ماں کا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی ہے ؟‘‘
دوسرے حصے میں سوات شورش کے دوران لکھے گئے وہ کالم ہیں جن میں اس وقت کے ناگفتہ بِہ حالات کی نہایت دل سوزی کے ساتھ تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان میں سوات اور اہلِ سوات کے ساتھ روا رکھے جانے والے طالبانی اور ریاستی ظلم و جبر کے خلاف توانا آواز بلند کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کالموں میں پورے پختون بیلٹ خصوصاً وزیرستان میں رونما ہونے والے خوں چکاں المیوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ امن کے نام پر سوات میں آنے والی سکیورٹی فورسز کی بے اعتدالیوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور قیامِ امن کے نام پر علاقے کے لوگوں کو جس طرح دانستہ طور پر جانی و مالی نقصانات سے دوچار کردیا گیا ہے، سوات میں چادر اور چاردیواری کا تحفظ جس بری طرح سے پامال کیا گیا ہے اور قدم قدم پر عام لوگوں کی عزتِ نفس کو جس بے دردی کے ساتھ مجروح کیا گیا ہے، اسے سپردِ قلم کیا گیا ہے ۔
یہ کالم ہی نہیں بلکہ درد اور بے بسی کے اظہاریے ہیں۔
محترمہ ثنا اعجاز کے مطابق: ’’اگر راہیؔ صاحب کے لکھے گئے روزمرہ کے اخباری اداریوں اور کالموں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ پشتونخوا وطن پر مسلط کردہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آڑ میں تباہ کاریوں، پشتونوں کے قتلِ عام، شدت پسندوں اور فوج کی آنکھ مچولی کے ذریعے ہماری قوم کی دربہ دری، بے بسی، خود کش حملوں، فضائی بم باریوں، توپ کی گولہ باریوں، لاکھوں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے، ان کو علاقہ بدر کرنے، انہیں کیمپوں میں زندگی بسر کرنے اور ان کی تاریخ، تہذیب، روایات اور امن کو پارہ پارہ کرکے انہیں دنیا کے سامنے ’’پشتون طالبان‘‘ کی شکل میں دہشت گرد پیش کرنے کا منظرنامہ ہے ۔ اس بیانیے کے تحت پشتون قوم کا اصل چہرہ مسخ کیا گیا ہے اور انہیں بدھا اور زرتشت کی امن اور شانتی چاہنے والی ذہنیت کی بہ جائے دانستہ طور پر القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروپوں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ ‘‘
سوات کا المیہ فراموش کرنے والا نہیں ہے۔ اس نے اہلِ سوات کو مادی اور نفسیاتی طور پر بد حال کردیا ہے۔ ہماری قابلِ رشک سماجی اقدار کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ یہاں کی خوب صورتیوں اور مثالی امن و امان کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سوات اب پرانا سوات نہیں رہا ہے۔ بے سروسامانی کی حالت میں پندرہ لاکھ سے زائد سواتیوں کی ہجرت اور پھر اپنی سابقہ جنت میں واپسی نے ان میں بہت سی منفی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جن کے اثرات تا دیر قائم رہیں گے۔
’’وادئ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ سوات میں طالبانی اور عسکری محاصرے کی خوں چکاں رُوداد ہے جسے اپنے آنے والی نسل کو منتقل کرنے کی ذمہ داری سوات کے ہر باشندے کی ہے۔
یہ کتاب ہر سواتی کو پڑھنی چاہیے، اسے اپنی گھریلو لائبریری کا مستقل حصہ بنانا چاہیے، تاکہ انھیں سوات کی تاریخ کا یہ الم ناک باب یاد رہے۔ وہ اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں اور اس کے پسِ پردہ کرداروں اور اصل حقائق سے اپنی آنے والی نسل کو آگاہ کرسکیں۔
یہ اہم کتاب شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز (سوات مارکیٹ، جی ٹی روڈ مینگورہ فون: 0946-729448) نے نہایت خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ بڑے سائز میں شائع کی ہے۔ 336 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کی قیمت 700 روپے ہے، لیکن شعیب سنز سے براہِ راست حاصل کرنے والے شائقین کے لیے رعایتی قیمت 500 روپے ہے۔
اس کے علاوہ پشاور میں یونی ورسٹی بک ایجنسی خیبر بازار، اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ، لاہور میں المیزان پبلشرز اُردو بازار اور کراچی میں فضلی سنز اُردو بازار اور ویلکم بک پورٹ اُردو بازار سے طلب کی جاسکتی ہے۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔