تین مارچ کو ایک عجیب منظر نظروں کے سامنے تھا۔ ملاکنڈ یونیورسٹی میں ’’ملاکنڈ یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن‘‘ کا احتجاجی واک یونیورسٹی کے اندر جاری تھا کہ ایسے میں ان کا سامنا یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ہوا۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ جن سے شکوے ہیں، وہ مداوا کریں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمارے ملک کے اندر جن کے پاس اختیار کی لاٹھی آجاتی ہے وہ اس سے ہر ایک کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ اس اچانک ملاقات میں کیا ہوا، یہ جاننے سے قبل آپ کو آج سے سات عشرے پہلے یہودیوں کی ایک میٹنگ کا حال ملاحظہ ہو۔
پچاس کی دہائی میں پوری دنیا کے امیر یہودیوں کی ایک میٹنگ ہوئی۔ یہ ’’ون پوائنٹ ایجنڈے‘‘ پر مشتمل تھی۔ ایجنڈا یہ تھا کہ ایک عظیم الشان سینیگاگ کی تعمیر کی جائے، تاکہ تمام یہودی یہاں ایک ساتھ عبادت کرسکیں۔ منصوبہ بندی کے بعد اس عظیم سینیگاگ کی تعمیر کے لیے وہاں موجود دنیا کے امیر یہودیوں کو چندہ دینے کی درخواست کی گئی ۔ چند ہی لمحوں کے اندر لاکھوں ڈالرز جمع ہونا سب کے لیے حیران کن تھا۔ اتنی خطیر رقم دیکھ کر اوسان خطا ہونا بجا تھا، ایسا مگر نہیں ہوا۔ وہاں صرف اطمینان اس بات پر تھا کہ عظیم سینیگاگ آسانی کے ساتھ بن جائے گا۔ سب خوش تھے مگر کچھ لوگ ایسے تھے جو حیرت سے صرف جشن منانے والوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے باقی تمام کو مخاطب کرکے ایک عجیب فلسفہ پیش کیا ۔ وہ کہنے لگے:’’کیوں نہ یہ خطیر رقم اعلا تعلیم پر خرچ کریں، تاکہ یہودی رب کی پیچان تعلیم ہی کے ذریعے ممکن بنائیں۔ ‘‘
ہم اگر یہ پورا پیسا دو چیزوں پر آج سے لگانا شروع کردیں، تو کچھ سال بعد اس دنیا پر ہماری حکمرانی ہوگی۔ ہمیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت اور ادارے چلانے کے لیے ہمیں مفت میں اہل لوگ مل جائیں گے اور جس دن ہمیں اہل لوگ ملیں گے، اسی دن سے ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہمارا سب سے پہلا کام اعلا تعلیم کے لیے بہترین جامعات بنانے کا ہوگا، جہاں تحقیق اور مسلسل کوشش کے ساتھ ٹیکنالوجی اور جدید دور کی تمام ضرورتوں سے آراستہ علم دوست ماحول ہوگا۔ ہم ایسے جامعات بنائیں گے جہاں بڑے افراد پیدا ہوں گے اور یہی افراد دنیا میں ہمارا نام روشن کریں گے ۔
دوسرا، ہم ان جامعات کو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیں گے جن کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہ ہو۔ یہ صرف تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے بلکہ یہ شعور کی دنیا میں بے مثال ہوں گے۔ یہ انسانوں میں سب سے نایاب لوگ ہوں گے اور ہم زیادہ پیسا انہی لوگوں پر صرف اس مقصد سے خرچ کریں گے، تاکہ یہ ہمارے لیے اپنی طرح کے اور لوگ پیدا کریں۔ ہم ایسے لوگوں کو جب یہ ادارے سونپیں گے، تو ہمارے تحقیقی مقالوں، پروفیسر اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں مانگ بڑھے گی ۔
قارئین، یہ مشورہ وہاں موجود تمام لوگوں کو پسند آیا اور پھر وہ کام پر لگ گئے۔ آج اگر ہم ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، تو صرف ایک فی صد کو چھوڑ کر پوری یہودی دنیا اعلا تعلیم یافتہ ہے ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی لمبی تمہید کی ضرورت کیا تھی؟ مَیں صرف ایک بات کو لے کر پچھلے کئی دنوں سے تناؤ کا شکار ہوں کہ آخر ہمارے رویے بدلتے کیوں نہیں ؟ تین مارچ کو ’’ملاکنڈ یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن‘‘ کے احتجاجی واک کا سادہ سا پس منظر بس یہ تھا کہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کے سٹیٹیوٹس میں وائس چانسلر صاحب نے اپنی پسند کی تبدیلیاں کی تھیں جن کا فائدہ صرف اس کی اپنی ذات کو ہے۔ مختلف چیزوں کو چھوڑ کر صرف ان چیزوں کو شامل کیا گیا ہے جس میں اجتماعیت کو چھوڑ کر صرف چند اشخاص کے فائدہ کو فوقیت دی گئی ہے۔
اُس دن جب ایسوسی ایشن والے پُرامن واک کر رہے تھے، تو اچانک ان کا سامنا وائس چانسلر صاحب سے ہوا ۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ گھر کے بڑے سے تھوڑی ناراضی ہے، ختم ہوجائے گی، مگر موصوف نے لڑنا مناسب سمجھا ۔
قارئین، ہم اگر یونیورسٹی ماڈل ایکٹ اور اس میں کی گئی تبدیلیوں کو چھوڑ کر صرف ایک چیز کو سامنے رکھ کر بات کریں تو آسانی ہوگی ۔ وائس چانسلر کی کرسی پر موجود شخص کا رویہ کیا ایسا ہونا چاہیے؟ میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے جب حکومتِ پاکستان کے ایک ملازم جو کہ وائس چانسلر ہے، کو وہاں موجود ایک ٹیچر کو یہ کہتے سنا کہ ’’تم میرے ملازم ہو اور مجھے یہ سیکورٹی حکومت نے دی ہے۔ یہ تمہارا سر بھی اڑا سکتی ہے۔‘‘
بات کیا تھی…… سمجھنا آسان ہے۔ یونیورسٹی کے اندر ماحول کو خراب کئے بغیر تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ خاموشی سے احتجاجی واک کررہا تھا، تاکہ گھر کے بڑے کے سامنے چند ’’جینوئن‘‘ مسائل رکھے جاسکیں۔ ہمیں جب فیصلہ کرنے کا اختیار متا ہے، تو ہمارے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ ہم نے اس ملک میں کیا نہیں دیکھا……! اقربا پروری اور کرپشن سے لے کر ظلم اور ناانصافی تک کے بے شمار ڈرامے دیکھے لیکن مایوسی اور ’’نان ویلنگ نیس‘‘ کی انتہا تو دیکھیے کہ ہمارے تقریباً تمام ادارے ایسے لوگوں کے سپرد ہیں جن کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ملاکنڈ ٹیچر ایسوسی ایشن کے 80 افراد نے وزیر اعلا خیبر پختون خواہ کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان تمام مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے ایک علم دوست ماحول میں کافی گڑ بڑ پیدا ہوچکی ہے۔
مجھے حیرت صرف اس بات پر ہے کہ وائس چانسلر کی سلیکشن صرف تحقیق اور ایمپکٹ فیکٹر پر اگر اسی طرح حکومت کرتی رہی، تو یونیورسٹیوں کے اندر استحصال مزید طول پکڑ لے گا۔
یہ کون لوگ ہیں جو اس ملک کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ یونیورسٹی کے اندر انسانی ذہن کی اصل تعمیر ہوتی ہے، ہم مگر اس میدان میں اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس پر کسی بڑے تحقیق کی ضرورت نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ سیاست یہاں بھی سرائیت کرچکی ہے۔
جو لوگ اس بڑے اور اہم عہدے پر سلیکشن کرتے ہیں، ان کو کم از کم یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ شخصیت سازی وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کا ظرف اعلا ہو، جو حد سے زیادہ صابر ہوں، جو اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزورِ بازو نہیں بلکہ محبت سے ڈیل کرنا جانتے ہوں ۔
قارئین، جو مَیں نے دیکھا، وہ مطالبات کی کوئی لمبی فہرست نہیں بلکہ ایک اعلا ادارے کے ہیڈ کا رویہ ہے اور جس نے اب تک مجھ سمیت بے شمار اُن لوگوں کو پریشان کیے رکھا ہے، جو خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔
اب ایک امید باقی ہے جس کا جنازہ نکالنے کی تیاریاں عروج ہر ہیں۔ مَیں خود اسی یونیورسٹی میں سات سال رہا ہوں۔ اب بھی مگر یہاں تحقیقی مقالہ جات کا مقابلہ نہیں، بس صرف مایوسی ہے۔
وائس چانسلر صاحب کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ادارے چلانے کے لیے عزم و استقلال کا پیکر بننا پڑتا ہے۔ مجھ سے بے شمار لوگوں نے اس دن کے ان الفاظ کے بارے میں پوچھا۔ میرا بس یہی ایک جواب تھا کہ جب تک اس ملک کے تعلیمی اداروں سے سیاست کا خاتمہ نہیں ہوگا، تب تک ہم اسی طرح ماتم کرتے رہیں گے۔
جب تک جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کو سیاست سے پاک نہیں کیا جائے گا، ہم یوں ہی روتے رہیں گے اور ہماری سماعتوں میں اسی طرح ’’یہ سیکورٹی تمہارا سر بھی اڑا سکتی ہے!‘‘ کی آوازیں گونجتی رہیں گی۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔