بنیادی طور پر سینیٹ کی کسی بھی تعریف کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے، چاہے وہ جدید ڈکشنری کے تحت ہو یا پھر کسی قدیم طرزِ حکومت کو دیکھتے ہوئے۔ مطلب یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا اداراہ، ایوان، ہاؤس آج تک کی معلوم تاریخ میں شمار کیا جاتا رہا ہے اورآج بھی شمار کیا جا رہا ہے کہ جس میں دانا لوگ شامل ہوں۔ ایسے دانا و عقل مند لوگ کہ جو لوئر ہاؤس، ایوانِ زیریں اور پاکستان کے حوالے سے کہیں تو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قانون سازی کو پاس کرنے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کریں کہ ایوانِ زیریں میں جو کارروائی ہوئی وہ ملک، قوم اور عوام کے لیے کتنی بہتر ہے اور کتنی نہیں۔
ہمیں اکثر تاریخ میں "Counsel of Elders” جیسے الفاظ لکھے نظر آتے ہیں۔ یہ ہالی ووڈ کی قدیم تاریخ پہ بنائی گئی فلموں میں بھی سننے کو ملتے ہیں۔ گھر میں کسی بڑے کی مثال کو سامنے رکھیے۔ کوئی مباحثہ ہو یا فیصلہ کرنا ہو، بزرگ یا بڑے کی عقل و دانش سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہر ایک کو توقع ہوتی ہے کہ وہ عقل و دانش کے تحت نہ صرف بہتر فیصلہ کریں گے بلکہ فلاح کا عنصر بھی زائل نہیں ہونے دیں گے۔ ان بڑوں پہ سب کو اعتماد بھی ہوتا ہے ۔
ْ قدیم روم میں سینیٹ کے وجود اور نشانات ایسے ہیں کہ جوآج تک کے جدید دور میں قائم ہیں۔ سینیٹ، ہاؤس آف لارڈز، کونسل آف ایلڈرز، اپر ہاؤس، ایوانِ بالا یا کوئی بھی نام پکار لیجیے۔ یہ ذہن میں آتے ہی بس ایک ہی مطلب سامنے آتا ہے اور جو مطلب ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہی مطلب قدیم روم میں بھی تھا۔
جدید دور میں اگر ہم جائزہ لیں، تو امریکہ میں سینیٹ انتہائی مضبوط ہے۔ روس میں چیئر پرسن فیڈریشن کونسل کا عہدہ صدر اور وزیر اعظم کے بعد تیسرا مضبوط ترین عہدہ ہے۔ اسی طرح برطانوی ہاؤس آف لارڈز کا کردار بہت مضبوط ہے۔
موجودہ معلوم تاریخ میں اگر ہم بطورِ طالب علم مشاہدہ کریں، تو قدیم روم کے بعد اس وقت امریکی سینیٹ کو ہم مضبوط ترین شمار کرسکتے ہیں کہ سینیٹ اراکین ایک مکمل اختیار رکھتے ہیں اور امریکی سینیٹ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ اکثریت اعلا عہدوں کی سینٹ کو جواب دہ ہے۔
پاکستان میں حالات ہمیں مختلف نظر آتے ہیں۔ یہاں ہم اکثر دیکھتے، سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ آئینی طور پر تو سینیٹ کے پاس اختیارات تفویض کیے گئے ہیں، لیکن عملاً صورتِ حال نمائشی سے بڑھ کر ثابت نہیں ہو رہی۔ ہمیں سینیٹ میں حرکت صرف سینیٹ کے انتخابات کے دوران میں ہی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر سینیٹ ایوانِ زیریں کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو دیکھ اور پرکھ سکتا ہے، لیکن پاکستان میں حقیقی معنوں میں کیا ایسا ہو رہا ہے؟ جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا دل خود اس سوال پہ جواب نفی میں دے رہا ہوگا۔ پاکستان میں سینیٹ کا سوائے اس کے کہ متناسب نمائندگی تمام صوبوں کو میسر ہوئی، کوئی فائدہ بظاہر نظر ہم طالب علموں کو نہیں آیا۔ اس حوالے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جان بوجھ کے سینیٹ کی اصل اِفادیت اجاگر نہ کی گئی اور نہ ایسا ہونے دیا گیا۔ آئینی طور پر صدرِ پاکستان کی ملک میں عدم موجودگی یا کسی بھی حوالے سے عہدہ خالی ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔
ہمیں موجودہ سینیٹ انتخابات میں بھی یہ خبریں روزانہ کی بنیاد پر سننے کو ملتی ہیں کہ سینیٹ میں کرپشن کی منڈی لگی ہے۔ ایک ویڈیو اس حوالے سے سامنے آئی کہ صوبائی اسمبلی کے پی کے کے ممبران دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہیں لیکن اس پورے معاملے کو ایک الگ جہت کے ساتھ دیکھیں، تو ہماری سیاسی پارٹیاں سینیٹ کے ساتھ کتنی سنجیدہ ہیں؟ یہ پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کے مرحلے سے ہی واضح ہوچکا ہے۔ حکمران جماعت نے فیصل واوڈا صاحب کو ٹکٹ سے نوازا، جب کہ ان کے سر پر پہلے ہی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دوسرا وہ کس شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے ہیں کہ ایوانِ بالا میں اُن کے عقل و دانش سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے؟
قریبی دوست یعنی دوست محمد حکومتی سنجیدگی کی ایک اور مثال ہیں۔ سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ ملنے کی وجوہات میڈیا میں زیرِ بحث لائی جا چکی ہیں۔ مولانا صاحب کے حوالے سے خبریں زیرِ گردش ہیں کہ پارٹی ٹکٹ بھی فیملی میں ہی گردش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم کو نااہلی سے نہ بچا سکی لیکن اسے سینیٹر بنا کے ایوان میں بہرحال واپسی کا سوچ رہی ہے۔ حکومتِ وقت پہ جتنی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں، اس سے زیادہ غیر ذمہ داری سینیٹ میں ٹکٹس کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آ رہی ہے۔
سندھ میں پی ٹی آئی کا فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینا کارکنان کے حوصلے پست کر رہا ہے، توکچھ دوستوں کو نوازنا بھی نظریاتی کارکنوں کو پسند نہیں آیا۔
بلوچستان میں ٹکٹس کی تقسیم میں غیر سنجیدگی ویسے ہی موضوعِ بحث ہے۔ اسلام آباد سے حکومتی جماعت کا ٹکٹ کارکن کا نصیب ہونے کے بجائے ایک ایسی شخصیت کا نصیب ہوا کہ جس کے تعلقات آمریت ہو یا جمہوریت ہر حکومت سے ’’بہترین‘‘ رہتے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اس سے غرض نہیں کہ اس ایوان کا کردار مضبوط کیا جائے اور حقیقی معنوں میں اس کی اِفادیت ثابت کی جائے، بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پہ متفق نظر آتی ہیں کہ ہر تین سال بعد سجنے والی منڈی میں مرضی کی بولی لگا کر مرضی کے امیدوار کو جتوایا جائے اور پھر تمام مدت کے لیے اس کو ’’ربر سٹیمپ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جائے اور بس!
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔