افغان امن معاہدے پر بے یقینی کے منڈلاتے سائے

تین فروری کو امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قائم کردہ کانگرس کمیٹی جس کا نام ’’افغان سٹڈی گروپ ہے‘‘ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ کانگرس کی یہ کمیٹی فارن پالیسی ماہرین پر مشتمل تھی۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے مذاکرات کے خاتمے کے بعد صورتِ حال پر غور و خوص نہیں کیا ہوگا؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے فوج کی واپسی کے عمل کو اس لیے روک دینا چاہیے کہ وہاں سیکورٹی کی صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں اگر باقی ماندہ دو ہزار پانچ سو امریکی فوجی بھی واپس بلائے گئے، تو افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔
قارئین، کانگرس کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری 2020ء کے امریکی طالبان امن معاہدے کے مطابق یکم مئی 2021ء تک امریکی افواج کے مکمل انخلا کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔
رپورٹ میں نئے امریکی صدر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ یکم مئی 2021ء کی ڈیڈ لائن کو اہمیت دینے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ طالبان نے کسی حد تک امن معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے تشدد میں کمی کی ہے؟
رپورٹ سے یہ مقصد صاف طور پر عیاں ہوتا ہے کہ کمیٹی طالبان سے تشدد میں کمی کا وہ مطالبہ منوانا چاہتی ہے جو اُس نے پچھلے ایک سال میں نہیں مانا۔
کمیٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کی طرف سے عدم تعاؤن کی صورت میں امریکی صدر جوبائیڈن کو نہ صرف جنگ جاری رکھنے بلکہ دو ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کا مشورہ دیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کا نام لیے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے طالبان کو تشدد میں کمی لانے پر آمادہ کرنا چاہیے۔
امریکی کانگرس کمیٹی کی رپورٹ پر طالبان نے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان امن معاہدہ طالبان اور امریکی مذاکرات کرنے والی ٹیموں کی بہت کوششوں، مشاورت اور مذاکرات کا ثمر ہے۔ افغان مسئلے کو حل کرنے کا یہ واحد، معقول اور پائیدار طریقہ ہے۔ اگر دوحہ معاہدہ ختم کیا گیا، تو یہ بڑی جنگ کا باعث ہوگا اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی۔ نئی امریکی انتظامیہ کو دوحہ معاہدے کے بارے میں جذباتی ردِ عمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ، افغانستان میں جنگ جاری رکھے، جنگجوؤں اور بدعنوان حکمرانوں پر سرمایہ کاری نہ کرے۔ طالبان نے دعوا کیا ہے کہ انہوں نے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے اور اپنے وعدوں کی پاس داری کی ہے۔
طالبان معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے پابند ہیں اور اسی معاہدے کے مکمل نفاذ کو افغانستان کے جاری بحران کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔
طالبان نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو ایسے اقدامات اور تاثرات سے باز آنا چاہیے جو ہمیں جنگ کی طرف دھکیل رہے ہوں۔ پہلے والے حالات امریکہ کے مفاد میں تھے اور نہ افغان عوام کے مفاد میں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ کانگرس کمیٹی نے طالبان پر دوحہ معاہدے کی پاس داری نہ کرنے کے جو بے بنیاد الزامات لگائے ہیں، وہ حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔ کمیٹی نے حقیقت پسندانہ کام کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔
طالبان نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ کمیٹی میں شامل جنرل ڈنفورڈ کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے وہ افغان مسئلہ کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعاون کے سربراہ اور سابق مشیر ڈاکٹر بارنیٹ آربن نے نئی امریکی حکومت کی جنوبی ایشیا کے لیے ممکنہ پالیسی کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے اپنے خطاب میں کہا کہ جوبائیڈن کو افغان میں امن کے لیے امریکہ طالبان معاہدے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
آربن سمجھتے ہیں کہ افغان امن معاہدے میں بنیادی طور پر نہ تو سمجھوتا کیا گیا ہے اور نہ نتائج کا کوئی معاہدہ۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان پھر امریکہ طالبان معاہدے کے لیے اینکر کا کردار ادا کرے گا۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی اور اس سے کابل حکومت کی چشم پوشی اختیار کرنا اور دوسری طرف امریکہ کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے تکلیف دہ ہے، مگر پھر بھی نئی امریکی انتظامیہ پاکستانی تحفظات کو اہمیت نہیں دے گی جو کہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کا ایک مشکل مرحلہ اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے لیے چین اور امریکہ میں بیلنس رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹونی بلنگن کی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک گفتگو سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ دوہرا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے امریکہ اور طالبان میں معاہدہ ضرور ہوا، مگر اس پر عمل درآمد کے آگے سوالیہ نشان ہے۔ افغان امن معاہدہ اگر ختم کیا گیا، تو اس کے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ دنیا میں سارا مسئلہ توازن کا ہے اور کائنات کا تمام تر دار و مدار دو خیر و شر کی قوتوں کی پُراسرار ہنگامہ آرائی کی مرہون منت ہے۔ حیرت ناک عمل یہ ہے کہ ہر زمانے میں دونوں کا تناسب برابر ہونے کے باوجود خیر کو فتح نصیب ہوتی ہے۔
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔