مجھے عطاء الحق قاسمی کی پیدائش سے سروکار ہے نہ وفات سے۔ عزیز (براہِ کرم، اسے عُزیر نہ پڑھا جائے) ہے تو وہ جذباتی تعلق جو TEEN ایج میں اکثر ہوجاتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی سے غائبانہ تعارف تو گھر میں آنے والے ’’نوائے وقت‘‘ کی وجہ سے تھا مگر پہلی ملاقات 19 سال کی عمر (1979ء) میں کراچی سے واپسی پر ہوئی، جب میں اپنی زندگی کے اوّلین رومانوں میں سے ایک کی گرفت میں تھا۔ اپنی اُسی محبوبہ کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کے لیے میں اپنی کوئی چیز اخبار میں شائع کروا کر اُن کے پورے گھر پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا۔ مجھے وہاں سے جو لائن دی گئی تھی وہ "FIRST DESERVE THEN DESIRE” تھی۔ سال کے 12 مہینوں کے حوالے سے لکھی ہوئی جانے کس مظلوم شاعر کی نظم مجھے میری سنگ دل محبوبہ نے اپنے نام سے چھپوانے کے لیے دی تھی۔ یہ ویسا ہی "TEST CASE” تھا، جیسا کسی زمانے میں شہزادیاں، شہزادوں کو آزمائش میں ڈالا کرتی تھیں۔
ویسے تو ’’شہزادہ‘‘ عطاء الحق قاسمی کا نک نیم ہے مگر مَیں بھی اُن دنوں جذباتی سیلاب میں بہتا ہوا ایک شہزادہ ہی تھا اور شہزادوں ہی کی طرح نتائج سے بے پروا ہوکر حالات سے ٹکرا جایا کرتا تھا۔
عطاء الحق قاسمی کو اتفاق (اتفاق فاؤنڈری نہیں) سے مَیں نے ’’نوائے وقت بلڈنگ‘‘ سے باہر نکلتے وقت جا پکڑا۔ وہ اپنے نیلے رنگ کی جاپان اسمبل سوزوکی موٹرسائیکل سٹارٹ کرکے نکلنے ہی والے تھے۔ مَیں نے مختصر ترین الفاظ میں اُن کی تعریف کی اورملاقات کی غرض و غایت بیان کی۔ اُنہوں نے میری محبوبہ کی دی ہوئی نظم مجھ سے لے کر اپنی جیب میں ڈال لی۔ مجھے کاغذ پر اپنے کرائے کے گھر کا پتا لکھ کر دیا جو ونڈ سرپارک، اچھرہ، لاہور کا تھا۔
میری خوشی کا اُس وقت کوئی ٹھکانا نہ رہا جب ایک روز اچانک میں نے وہی نظم عطاء الحق قاسمی کے کالم میں لگی دیکھی۔ کالم میں نظم کے ساتھ میرا حوالہ بھی موجود تھا۔ مَیں نے اُس کالم کی فوٹوکاپی (جو اُن دنوں خاصی مہنگی تھی) کروا کر فوری طور پر کراچی پوسٹ کردی اور بعد میں ایک سرکاری فون سے مفتا لگا کر اس کارنامے کی داد بھی وصول کی۔ پھر ایک دن مَیں عطاء الحق قاسمی کے دیے ہوئے پتے پر رات کے وقت شکریہ ادا کرنے پہنچ گیا۔ مَیں اپنے ساتھ مٹھائی اورکیمرہ بھی لے کر گیا تھا تاکہ عطاء الحق قاسمی کے ساتھ تصویر اُتروا کر اپنی محبوبہ پر مزید ملبہ ڈالا جاسکے۔ مَیں ونڈ سرپارک سائیکل پر پہنچا ہی تھا کہ زبردست آندھی نے آلیا۔ قاسمی صاحب سے ملاقات کے وقت میں اُن کا مداح کم اور آفت زدہ زیادہ لگ رہا تھا۔ قاسمی صاحب نے بڑی محبت اور اپنائیت سے مجھے پہلے نہا کر فریش ہوجانے کو کہا اورپھر کشمیری ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے بڑا مزیدار کھانا بھی کھلایا۔ گھر کی حدود میں تھے، اس لیے بوجوہ لطیفے نہ سنا سکے۔ عمرقاسمی اُس وقت سال ڈیڑھ سال کا تھا، وہ اپنے ابو کو تصویر اُترواتا دیکھ کر ننگ دھڑنگ اپنے ابو کی گود میں آگیا۔ مَیں نے باپ بیٹے کی یہ بے تکلّفانہ تصویر اُتار لی اور نیوملینیم میں اپنی کتاب ’’اُردو کی آخری مکمل کتاب PART-I‘‘ میں اس کیپشن کے ساتھ شائع کردی: ’’مدیرمعاصر عطاء الحق قاسمی کی گود میں نائب مدیر عمر قاسمی، امجد اسلام امجد کی معاصر سے چھٹی کروانے کے بعد خوشگوار موڈ میں۔‘‘
عطاء الحق قاسمی کے والد صاحب بہاؤ الحق قاسمی صاحب سے بھی وہاں پہلی ملاقات ہوئی۔ بڑے ملنسار، حلیم الطبع اورنورانی صورت بزرگ تھے۔ ایک عرصے بعد عطاء الحق قاسمی نے اُن کے حوالے سے یہ جملہ بھی کہا تھا: ’’لوگوں کی اولاد تابع دار ہوتی ہے ہمیں والدین تابعدار ملے تھے!‘‘ مَیں نے جب اپنے والد صاحب کو بتایا کہ عطاء الحق قاسمی میرے دوست ہیں، تو پہلے انہیں یقین نہ آیا غالباً مجھے "TEST” کرنے کی غرض سے انہوں نے کہا کہ قاسمی صاحب کو کبھی چائے پر گھر تو بلاؤ۔ میرے کہنے پر ایک دن قاسمی صاحب آگئے۔ یوں میرے والد صاحب کو مجھ پر فخر محسوس ہوا کہ کالم نگار عطاء الحق قاسمی میرا دوست ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد عطاء الحق قاسمی نے "M.A.O” کالج میں اپنے لیے مختص کمرے میں ملاقات کے دوران بتایا کہ علامہ اقبال ٹاؤن کے جہاں زیب بلاک میں اُن کے اعزازی کم ذاتی گھر کی تعمیر شروع ہوگئی ہے، جسے میں کسی دن دیکھنے آؤں۔ کالج والا نجی عقوبت خانے جیسا سیلن زدہ کمرہ عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کسی قناعت پسند، لو میرج کرنے والے جوڑے کی طرح شیئر کرتے تھے اور اُف نہیں کرتے تھے۔ کالج کا نام اورمقام ایسا تھا کہ دونوں کالج کم کم ہی جاتے تھے۔ غیرنصابی سرگرمیوں پر طلبہ سے بھی کہیں زیادہ توجہ دیتے تھے۔ کبھی کالج میں اپنے دوستوں کو اکٹھا کرکے مشاعرہ کروا دیا یا ضیاء الحق کی طرف سے دو طرفہ ہوائی ٹکٹ مع لفافہ موصول ہوتے ہی ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کی بُلبلی مارتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ حاکمِ وقت کو خوش کرنا بھی تو ہر سرکاری ملازم کے حلف کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی جہاں ضیاء الحق پوری پاکستانی قوم کے لیے خوفناک عفریت کی حیثیت رکھتا تھا، وہیں یہ دونوں لیکچرر صاحبان اُسے ہنسا ہنسا کر مار دینے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے عطاء الحق قاسمی نے اُسی وقت سے خفیہ سفارت کاری کی ریہرسل شروع کردی ہو اور مجیدے ٹنڈ اور سُرمے والی سرکار کے درمیان وچولے کا کردار وہی ادا کرتے ہوں۔
عطاء الحق قاسمی کا مکان کھڑا ہو رہا تھا۔ پلستر ہونے لگے تھے۔ میر اگھر عطاء الحق قاسمی کے زیرِ تعمیر گھر سے قریب ہی تھا۔ عطاء الحق قاسمی نے مجھے سیڑھیوں کے اوپر ڈیزائن کروائی ہوئی ذاتی لائبریری بڑے شوق اورفخر کے ساتھ دکھائی۔ مجھے بھی یہ سب اچھا لگا۔ اس وقت حلال و حرام کی کوئی خاص پہچان اورتمیز بھی نہ تھی۔ خیر مکان مکمل ہوگیا اور پھر اُس مکان میں میرا کئی بار آناجانا ہوا۔ مَیں نے عطاء الحق قاسمی کے ڈرائنگ روم میں جن لوگوں کو بیٹھے دیکھا اُن میں نمایاں نام فخر گورڈن کالج، راول پنڈی ڈاکٹر اجمل نیازی، مفرور پبلشر طاہر اسلم گورا اورالحمد پبلی کیشنز کے مالک اور کلرک ایسوسی ایشن کے صدر صفدرحسین بھی تھے۔ صفدرحسین تو عطاء الحق قاسمی کے پبلشر بھی تھے اور ’’معاصر‘‘ کی اشاعت انہی کے ذمہ تھی۔ اُس وقت حاصل پور کا حسن عباسی حصولِ رزق کے لیے لاہور نہیں ٹپکا تھا۔ عُزیر احمد(گجر) کا بھی دوردور تک نام و نشان نہ تھا۔
عطاء الحق قاسمی نے اپنا مکان سرکاری پلاٹ پر اُس دور میں بنایا تھا جب سعودی شاہی خاندان کی ذاتی زکوٰۃ سے پورے پاکستان میں خوشحالی تھی۔ افغان جہاد کی برکتیں ہی برکتیں تھیں۔ عطاء الحق قاسمی نے نیلی سوزوکی موٹر سائیکل بچوں کو ہاتھ سیدھا کرنے کے لیے دے کر اب نیلے رنگ کی سوزوکی کار لے لی تھی۔
’’جنگ‘‘ (کراچی) جو میرے والد صاحب اتوار کے اتوار کراچی سے منگوا کر دوپہر یا شام کے وقت بڑے شوق سے پڑھتے تھے، کے مالک میر خلیل الرحمان مشرق (لاہور) کو بلامقابلہ بکتے نہ دیکھ سکے اورانھوں نے اپنا پہلا دفتر علامہ اقبال روڈ، لاہور پر کرایہ کی بلڈنگ میں بنایا۔ حسن رضوی، تنویر ظہور اور کچھ دوسرے صحافیوں نے لپک جھپک کر وہاں اپنی جگہ بنائی۔ حسن رضوی نے عطاء الحق قاسمی کو بھی جنگ لے جانے کی بہت کوشش کی مگر عطاء الحق قاسمی نے اُسے یہ کہہ کر چپ کروادیا: ’’صحافت میری نماز ہے اور مجیدنظامی اُس کا وضو ہیں۔‘‘ بعد میں جب عطاء الحق قاسمی نے جنگ کی چمک سے چندھیا کر جنگ جوائن کرلیا، تو مَیں نے قاسمی ہی کے جملے میں عرفانی ترمیم کی: ’’صحافت میری نماز ہے اور مجیدنظامی اس کا وضو ہیں جو حالت ’’جنگ‘‘ میں ٹوٹ بھی سکتا ہے!‘‘ اُن کی اہلیہ نے بھی اُن کو جنگ جانے سے یہ کہہ کر روکا: ’’اگر آپ کا نوائے وقت سے کوئی اصولی اختلاف نہیں، تو کوئی ضرورت نہیں جنگ جانے کی۔‘‘ اُن کی اہلیہ کے یہ تاریخی الفاظ عطاء کے طویل انٹرویو پر مبنی کتاب ’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘‘ مصنف: از ہرمنیر میں پڑھے جاسکتے ہیں جو خود عطاء الحق قاسمی نے نصف صدی کے بعد اپنی جون بدلنے کی غرض سے غائب کروادی۔ کیوں کہ لفظ کی حرمت کے تو وہ قائل ہیں اور اس کتاب کے آئینے میں وہ خود فطری لباس میں دکھائی دے رہے تھے۔ کتاب کے پبلشر لیاقت علی ’’تخلیقات‘‘ کا اب تک اس کتاب کے غم میں رو رو کر برا حال ہے۔ عطاء الحق قاسمی تو دور کی بات ہے، حسن عباسی اور عُزیراحمدگجر تک کو اُسے دلاسہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔
مِزاح نگاروں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کا مذاق تو جی بھر کر اُڑاتے ہیں، لیکن اگر کوئی خود اُن کو نشانہ بنائے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ مِزاح نگار بھی وہ جو حاکمِ وقت کو لطیفے سناتا ہو کب برداشت کرے گا کہ کوئی اُسے بھی اپنی مِزاحیہ سان پر رکھے۔
عطاء الحق قاسمی نے اپنے نئے گھر کا نام ’’العطاء‘‘ رکھا تھا۔ اتفاق سے یہی نام مختار مسعود کے شادمان والے گھر کا بھی ہے۔ کچھ ایسا ہی اتفاق اُن کے کالموں کے مجموعے: ’’کالم تمام‘‘ کے ساتھ ہوا جو جانے کیسے پروین شاکر کے کلیات’’ماہِ تمام‘‘ کے وزن پر رکھا گیا۔ اُن کے گھر پر توسرکاری برکتیں نازل ہوئیں مگر ’’کالم تمام‘‘ وہ منحوس کتاب قرار پائی جسے سنگ میل جیسے ادارے نے 70 فی صد ڈسکاؤنٹ پر مارکیٹ میں پھینکا۔ عطاء الحق قاسمی جیسے ڈان کے کہنے پر ’’حلقۂ عطائیہ‘‘ کے ہر رکن کی یہ ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ یہ مجموعہ جیسے بھی ہو فٹ پاتھوں پر سے تو اُٹھائے۔ یُوں خدا خدا کرکے جنرل ایوب خان کی خودنوشت کی طرح اس کتاب سے قارئین کی جان چھوٹی۔
عطاء الحق قاسمی نے ’’العطاء‘‘ کے باہر لیٹربکس بھی لگوایا تھا جس کی سب سے زیادہ سہولت مجھے تھی۔ اُن دنوں میرے اندر ایک رائٹر اُبھر رہا تھا اورچاہتا تھا کہ اُس کا الٹراساؤنڈ کرکے اُسے بتایا جائے کہ وہ آخر ہے کیا؟ مَیں کالم نما کچھ چیزیں لکھ کر عطاء الحق قاسمی کے لیٹربکس میں ڈال آتا اورکالم آنے کے انتظار میں رہتا۔ اپنے کچھ کالموں میں عطاء الحق قاسمی نے نام لے کر میرا ذکر بھی کیا۔ میرے کچھ کالموں سے مرکزی خیال لے کر عطا نے اُسے کیا سے کیا بنا دیا۔ مجھے عطاء الحق قاسمی سے اگر گلہ ہے، تو صرف اس بات کا کہ انہوں نے ایک بار بھی میرے ٹیلنٹ کی براہِ راست حوصلہ افزائی نہیں کی۔ میرے لکھے ہوئے جس کالم کو عطا نے نظرانداز کرنے کی بلنڈر کی اس کالم کا عنوان: ’’گواسکر کی سنچری اور ہماری دُعائیں‘‘ تھا۔ یہ کالم مَیں نے 1987ء میں لکھ کر دیا تھا جب انڈیا اور پاکستان مشترکہ طور پر کرکٹ ورلڈ کپ کروا رہے تھے۔ عطاء الحق قاسمی کو کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں تھی اور دعوا نوازشریف سے دوستی کا تھا جن کی کرکٹ سے دلچسپی پوری گوالمنڈی تسلیم کرتی ہے۔ لارنس گارڈن میں اُن کے چوکے نہ روکنے کا انعام بچہ بچہ جانتا ہے۔ کرکٹ میں جوا ابھی امکان سے باہر تھا۔ سنیل گواسکر نے اُس وقت تک ون ڈے میں کوئی سنچری نہیں بنائی تھی۔ مَیں نے اپنے کالم میں گواسکر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مخالف ٹیم کے باؤلرز کے ساتھ مک مکا کرلے اور سنچری بناڈالے۔ اگر یہ کالم گواسکر کی نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری سے پہلے لگ جاتا، تو کمال ہوجاتا۔ کیوں کہ مَیں نے عطا کو یہ کالم ورلڈ کپ کے آغاز ہی میں لکھ کر دے دیا تھا۔ غالباً یہ گواسکر اور میرے حق میں بہتر ہی ہوا۔ گواسکر تو اکلوتی سنچری مار کر ریٹائر ہوگیا جب کہ میں کالم جیسی سہل پسندی اورصحافت سے نکل کر ادب کی طرف چلا گیا۔ میرے بعد حسن عباسی کا ٹیلنٹ جس طرح عطاء الحق قاسمی پر قربان ہوا، وہ باعثِ عبرت ہے ہر اُس مضافاتی کے لیے جو لاہور فتح کرنے کا عزم لے کر تو آتا ہے مگر یہاں آکر چڑھ جاتا ہے عباس تابش جیسے امریش پوری کے ہتھے۔
زمانہ تو اب "GIVE AND TAKE” کا ہی چل رہا ہے۔ عزیراحمد نے اپنے مولوی بھائی کے ادارے شفیق بک ڈپو سے عطاء الحق قاسمی کی کتاب ’’مزید گنجے فرشتے‘‘ شائع کروائی اور عطاء الحق قاسمی کو اُس سستے زمانے میں ایک لاکھ روپے کی رائلٹی بھی دلوائی۔ عطاء الحق قاسمی نے ’’ڈبل شاہ‘‘ کی طرح رقم ڈبل کرکے دونوں بھائیوں کو ایسے واپس کی کہ انہیں اپنی سفارت کے دوران مشاعرے میں ہوائی ٹکٹ اور اخراجات دے کر ناروے بلوایا جب کہ اعتبار ساجد جیسا شاعر جو شفیق بک ڈپو ہی سے چھپا تھا، ناروے کے مشاعرے کے لیے روتا سسکتا رہ گیا۔
یہ عالم تھا کہ اپنے ایک شاعر دوست کے والد کے قلوں میں گئے تو کھجور کی گٹھلیوں پر کلمہ طیبہ پڑھنے میں مصروف حاضرین میں اپنا رسالہ ’’ظرافت‘‘ بانٹ دیا۔ اس حرکت پر جو ردعمل ہوا، اگر جسٹس افتخار چوہدری کے علم میں آجاتا، تو وہ بھی سوموٹو ایکشن لینے پر مجبور پائے جاتے۔ ضیاء الحق قاسمی اپنی پیدائش کے ساتھ ہی نحوست لے کر آئے تھے۔ اُن کی پیدائش کوئٹہ میں زلزلے والی رات کو ہوئی تھی جس کے جھٹکے جانے کیسے امرتسر تک میں محسوس کیے گئے تھے۔
عطاء الحق قاسمی نے اپنی بزدلی اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جو ڈرائیور رکھا ہے، اُس کا نام ’’بہادر‘‘ ہے۔ گاڑی "CNG” پر چلتی ہے اور خود ڈرائیور پان پر چلتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کی نیم جنسی فتوحات میں عزیراحمد کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا حسن عباسی کا۔ شیخ زید بن سلطان النہیان (فاتح رحیم یار خان) کو پھڑکتی بوٹیوں کی فراہمی ملتان روڈ، لاہور پر واقع نگارخانوں سے ہوتی تھی اور عطاء الحق قاسمی کے لیے پٹولوں کی کھیپ حافظ جوس کارنر سے فراہم کی جاتی ہے۔ حافظ جوس کارنر وہ ڈیم ہے، جہاں سے عطاء الحق قاسمی کی جنسی فصل کی آبیاری کی جاتی ہے۔ بیرونِ ملک جاکر عطا بارانی ہوجاتا ہے۔
عطاء الحق قاسمی کے لاہورآرٹس کونسل سنبھال لینے سے، جس کی داغ بیل فیض احمد فیضؔ جیسی عظیم شخصیت نے ڈالی تھی، ادیبوں اور فنکاروں کو اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا "LAHORE ZOO” والوں کو پہنچا ہے۔ جب بھی افریقی دریائی گھوڑا پاکستانی حالات سے اُکتا کر اپنے لیے مختص تالاب کی تہہ میں آرام فرما رہا ہوتا ہے اور بچے اُسے دیکھنے پر بضد ہوتے ہیں، تو چڑیا گھر والے ایسے ضدی بچوں کو سڑک پار آرٹس کونسل کی طرف "DIVERT” کر دیتے ہیں۔ بچے بھی نایاب نسل کا کشمیری دریائی گھوڑا دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور اُس پر سکے نچھاور کرنے لگتے ہیں۔ رہی سہی کسر ’’بزبانِ قاسمی‘‘ لطیفے سن کر یا سی ڈی دیکھ کر پوری ہوجاتی ہے۔ سبق آموز کہانیاں قوم کو سنانے کا ٹھیکا تو اشفاق احمد کے پاس تھا، اس لیے عطا نے اشفاق احمد کے چھابے پر چھاپا نہیں مارا۔ کہانیوں والی فصلیں اُجاڑنے سے ’’بوجوہ‘‘ گریز کیا۔
عطاء الحق قاسمی کے پی ٹی سی ایل نمبر 04237521122 پر چلتی ٹیپ: ’’مَیں عطاء الحق قاسمی بول رہا ہوں، مَیں گھر پر نہیں ہوں۔ اگر تم ڈاکٹرفوزیہ چوہدری یا ڈاکٹر صغریٰ صدف کال کررہی ہو، تو میں گھر پر اکیلا ہوں۔‘‘
عطاء الحق قاسمی نے ایک تقریب کے دوران شہباز شریف کے کان میں یہ بتا کر چونکانے کی کوشش کی: ’’میاں صاحب، مَیں نے اپنی ناک سے F-16 طیارہ کھینچنے میں مکمل مہارت حاصل کرلی ہے۔ یوتھ گیمز میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں!‘‘ میاں شہباز شریف نے چونکے بغیر بڑے مدبرانہ انداز میں عطاء الحق قاسمی کو سرگوشی میں جواب دیا: ’’قاسمی صاحب! پلیز ایسی حرکت نہ کریں۔ آپ کی ناک جائے گی اور ہماری حکومت۔‘‘
اُن کا مینو فیکچرنگ فالٹ اصل میں اُن کے کشمیری ہونے میں ہے جو شلجم جیسی سویٹ ڈش کا سالن بنا کر کھاتے ہیں۔ بچپن میں انہیں ’’شہزادہ‘‘ کے نام سے کم اور ’’گونگلو پکاسو‘‘ (GONGLOO PICASSO) کے نام سے زیادہ پکارا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں شلجم اُن کی کمزوری ہوا کرتا تھا۔ اپنے گھر میں پکے ہوئے گونگلو اُن کی طبیعت نہ بھر پاتے، تو ہمسائیوں کی دیگچیاں خالی کرجاتے اور اُسے خوش خوراکی کا نام دیتے۔ اُن دنوں اُن کی جیبوں اور بستر تک میں سے شلجم عرف گونگلو برآمد ہوا کرتے تھے۔ وزیر آباد کے جن پرانے دوستوں کو وہ عزیراحمد اور حسن عباسی کی خاطر چھوڑ چکے ہیں، وہ اب مذکورہ دونوں شاعروں کو دھوتیاں اُٹھا اُٹھا کر بددعائیں دیتے ہیں۔ اقبال جوئیہ آف گکھڑ منڈی ایسے مشتعل دوستوں کو ٹھنڈا ٹھار شہتوت جلیبا بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر ناراض گروپ علی اکبر ناطق کی سربراہی میں پوری طرح متحد ہے اور اسلام آباد میں عطا شکن میزائلوں کی تیاری زوروں پر ہے۔
عطا کی تخلیقی صلاحیتوں سے کون تارڑ انکار کرسکتا ہے؟ اُن کی تخلیقی مشقت کا مونھ چھپاتا ثبوت کئی سفرناموں کے وہ "ABORTION” ہیں جو دشمنوں کے جلاپے میں جُلاب لے کر لکھے گئے۔
نوازشریف کسی پر گنجا اعتماد تو کرسکتے ہیں مگر اندھا اعتماد نہیں کرسکتے۔ جنرل مشرف نے انہیں یہی سکھایا ہے۔ حجاج بن یوسف نے تو ایک بیٹی کی پکار پر خود آنے کی بجائے اپنے جرنیل محمد بن قاسم کو بھیج دیا تھا مگر میاں نواز شریف نے ڈاکٹر سعادت سعید کی مخبری پر G.C. یونیورسٹی کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر صائمہ ارم کی بازیابی کے لیے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ معاملہ صوبائی سطح پر برادرِ خورد میاں شہباز شریف کے سپرد کرنے کی بجائے ازخود چھاپا مارنے کا دلیرانہ فیصلہ اسلامی روایات کے عین مطابق کیا۔ انہوں نے گلیمر ہائٹس، وارث روڈ، لاہور، جوکہ عطاء الحق قاسمی کا آرٹس کونسل کے بعد دوسرا بڑا اڈا ہے (تیسرا ٹھکانا اصغر ندیم سیّد کا گھر ہے) پر خلفائے راشدین کی یاد تازہ کرتے ہوئے وگ بدل کر چھاپا مارا۔ عطاء الحق قاسمی کی ذہانت اور اثر و رسوخ دیکھیں کہ اُس نے اِس چھاپے کو بھی میڈیا میں ’’دوستانہ ملاقات‘‘ قرار دلوا دیا۔ عطاء الحق قاسمی تیری شاطرانہ ذہانت کو سلام!
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔