ابتدائے افرنیش سے حق و باطل کے درمیان چپقلش جاری ہے۔ اگرچہ باطل جبر، وسائل کی فراوانی اور کثرتِ تعداد کی وجہ سے عارضی طور پر اُبھرتا ہے لیکن قانونِ فطرت رہا ہے کہ حق ہمیشہ باطل کے مقابلے میں سرخرو اور ظفر مند ہوتا ہے اور باطل آخرِکار ذلیل و خوار اور سرنگوں ہوکر مٹ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خدائے تعالیٰ چند نفوس مقدسہ کا انتخاب کرتا ہے جو اس کانٹوں بھرے راستے پر چلتے ہیں اور اس راہ میں قربانی دے کر امر ہوجاتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں ایثار و قربانی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، سانحۂ کربلا کو ان میں اہم مقام حاصل ہے۔ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں واقعۂ کربلا کے اصل پیغام اور مقصد کو بھلا دیا گیا بلکہ اسے ایک افسانہ بنادیا گیا۔ حالاں کہ کربلا کے بے آب و گیا چٹیل میدان میں نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، آپ ؓ کے معصوم بیٹوں، رشتہ داروں اور جان نثار ساتھیوں نے جامِ شہادت نوش کرکے دنیا کے مظلوم، بے بس اور نظامِ زر کے ہاتھوں کچلے ہوئے عوام کے لیے ایک پیغام ابدی چھوڑا۔ آپؓ نے سچ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بچانے کی خاطر سر پر کفن باندھا اور ایک آمرانہ، ظالمانہ، جابرانہ اور خونخوار نظام کو چیلنج کیا اور کسی خوف اور لالچ نے آپؓ کے پایۂ استقلال میں لرزش پیدا نہیں کی۔ یہ قربانی رضائے الٰہی، فلاح و بقائے جمہوریت، عدل و انصاف کی حکمرانی اور عامۃ المسلمین کے فائدے کے لیے تھی۔ آمر وقت کو للکار اور بدلے میں آپؓ کی لازوال قربانی دنیا کے تمام حق پسند، مظلوم اور محکوم عوام کے لیے ابدی پیغام اور مشعلِ راہ ہے۔

دنیا کی تاریخ میں ایثار و قربانی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، سانحۂ کربلا کو ان میں اہم مقام حاصل ہے۔ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں واقعۂ کربلا کے اصل پیغام اور مقصد کو بھلا دیا گیا بلکہ اسے ایک افسانہ بنادیا گیا۔

غور کا مقام ہے کہ یومِ عاشورہ پر ہمارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟ یہ کہ تعزیے کرو، جلسے منعقد کرو، جلوس نکالو، حلوے مانڈے کھاؤ، فیرنیاں چاٹو اور مشروبات کی سبیلیں لگاؤ۔ امام باڑوں میں مرثیوں، نوحوں اور مساجد اور پنڈالوں میں نعت خوانی کی محفلیں سجاؤ۔ نہیں، کبھی نہیں۔ اسوۂ شبیری کا یہ تقاضا نہیں اور نہ یہ سانحۂ کربلا کی اصل روح اور پیغام ہے۔ سانحۂ کربلا کا ان رسومات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ شہدائے کربلا نے جابر اور استحصالی نظام کو بر قرار رکھنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق اور سچ کو دوام بخشا۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں۔ گفتار کے غازی ہیں اور کردار کے سلسلے میں ہمارا ریکارڈ صفر ہے۔ ہم شہیدِ کربلا امام حسین ؓ کی حق گوئی، جرأت اور صبر و استقامت کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن اپنی ذات میں ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ باطل کو للکارنا اور حق پر ڈٹ جانا زندگی کی بازی لگانے کے مترادف ہے۔ اگر چہ امام حسین ؓ کا کردار اور ان کی زندگی تمام عالمِ انسانیت خصوصاً امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آپؓ کی ذات کی نسبت سے ہم مسلمان مسلکوں اور فرقوں میں بٹ گئے اور اس فعل نے ہر زمانے میں اُمت مسلمہ کی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے اسے سخت نقصان پہنچایا جبکہ آج بعض اسلامی ممالک میں ان مسلکی اختلافات نے ایسا حشر برپا کر دیا ہے کہ آج یہ ممالک جہنم زار بن گئے ہیں جبکہ ہمارا خدا ایک، رسولﷺ ایک، قرآن ایک اور کعبہ ایک ہیں۔