سوات کے وزیراعلا بظاہر تو شریف انسان لگتے ہیں،ہوں گے بھی لیکن اندورونِ خانہ وہ سب کچھ چل رہا ہے جو حیدرہوتی کی وزارت میں ’’وزیراعلا ہاؤس‘‘ میں چل رہا تھا۔
یہ بات سمجھنے کے لیے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’خپل وزیراعلا‘‘یا ’’خائستہ لالا‘‘ کا تمام خاندان وزارتِ اعلا کے مزوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ویسے کہنے کی حد تو تحریکِ انصاف کی حکومت میں کرپشن سے پاک وصاف ہے، لیکن حقائق بتا رہے ہیں کہ ماسوائے عمران خان کے باقی سب کے سب اس حمام میں الف ننگے ہیں۔
جس حوالے سے تحریکِ انصاف والے پچھلی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے، وہ خرابیاں اب ان میں بھی صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ موجودہ حکومت میں کرپشن اور اقربا پروری کی کہانیاں تو بے شمار ہیں، لیکن آج کی نشست میں ہم ’’خپل وزیراعلا‘‘ کی کچھ دیدہ و نادیدہ ’’نوازشات‘‘ کا ذکر کریں گے۔ ممکن ہے جو کچھ میں آگے رقم کرنے جا رہا ہوں، اس سے وزیر اعلا موصوف لاعلم ہوں۔ اب اگر لاعلم ہیں، تو پھر بھی ذمہ دارہیں کہ ان کی ناک کے نیچے ہی سب کچھ چل رہا ہے۔ ان کے نام پر ان کے بھائی اور باقی لوگ بہتی گنگا میں اشنان فرما رہے ہیں۔ میں کچھ واقعات جن کے ثبوت میرے پاس موجود ہیں، لکھوں گا۔ پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ وزیراعلا لاعلم ہیں یا انہیں لاعلم رکھا جارہا ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ چند مہینے پہلے محکمۂ اوقاف کے ایڈمنسٹریٹر جو کہ ایک ایمان دار افسر ہیں، نے تین مولویوں کی تنخواہیں روک لیں۔ وجہ یہ تھی کہ ریکارڈ کے مطابق مذکورہ مولوی جو باریش اور محترم بھی ہیں، محکمۂ اوقاف سوات کے ملازم ضرور ہیں، لیکن چھے مہینے سے زیادہ ڈیوٹی پر گئے تھے، نہ دفتر کا دروازہ تک ہی دیکھا تھا۔ بس مفت کی تنخواہ مل رہی تھی اور شاید بغیر ڈیوٹی کے تنخواہ لینا ان کے لیے حلال بھی تھا۔
خیر، پشاور میں بیٹھے محکمۂ اوقاف کے ایڈمنسٹریٹر کو پتا چلا، توفوراً ان کی تنخواہیں روک لیں۔ اب مولوی چوں کہ وزیرِاعلا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اس لیے وزیرا علا صاحب کے بھائی ’’احمد خان‘‘ نے ایڈمنسٹریٹر کو فون کھڑکایا اور کہنے لگے: ’’آپ کو پورے صوبے میں صرف ہمارے بندے نظر آرہے ہیں؟‘‘ آگے سے ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ ڈیوٹی نہ کرنے والے آپ کے لوگ کیسے ہوگئے؟ اس پر احمد خان صاحب کچھ سمجھ تو گئے کہ بندے کو ایمان داری کی بیماری ہے، لیکن ایڈمنسٹریٹر کو مجبور کیا گیا کہ مذکورہ صاحبانِ جبہ و دستار کی تنخواہیں بحال کی جائیں، بے شک وہ ڈیوٹی کریں یا نہ کریں۔‘‘ افسر بھی دھن کے پکے تھے، اس لیے دباؤ میں نہ آئے۔ نتیجتاً تینوں مولویوں کو پشاور جاکر ایڈمنسٹریٹر صاحب کے سامنے پیش ہونا پڑا جہاں فیصلہ یہ ہوا کہ تینوں صاحبان روزانہ صبح دفتر آکر طے شدہ اوقاتِ کار میں دفتر ہی میں رہیں گے۔ تب کہیں جاکر ان کی تنخواہیں بحال ہوئیں۔
قارئین، اب سوال یہ ہے کہ احمد خان اگر وزیر اعلا کے بھائی نہ ہوتے اور وزیر اعلا ان کو اختیارات نہ سونپتے، تو پھر وہ کس حیثیت میں افسرانِ بالا کو سفارشی فون فرماتے؟
احمد خان کس قانون کے تحت ان لوگوں کے سفارشی بنتے ہیں جو ڈیوٹی تونہیں کرنا چاہتے، لیکن سرکار سے تنخواہیں بٹورنا چاہتے ہیں؟
کیا قومی خزانہ کا مال شیرِ مادر ہے؟
شنید یہ بھی ہے کہ وزیر اعلا ہاؤس میں احمد خان کا اپنا خاص بندہ یا ’’فرنٹ مین‘‘ ہے۔ اس طرح احمد خان کے بھائی کا علاحدہ فرنٹ مین ہے۔ اور تو اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود وزیراعلا صاحب کا اپنا ایک ’’بندۂ خاص‘‘ جو وزیراعلا ہاؤس میں بیٹھا ہے، مولانا فضل الرحمان کے علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس موصوف نے اختیار کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ ظاہر ہے حکومتی اہلکاروں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس پر کسی اور موقعہ پر تفصیلاً بات ہوگی۔ سرِدست یہ کہ وزیر اعلا صاحب اور ان کے بھائیوں کے مبینہ فرنٹ مین ’’وزیر اعلا ہاؤس‘‘ میں براجمان ہیں اور وہاں کیا ہوتا ہے؟یہ سب کچھ اب تحریکِ انصاف کے ڈھیر سارے لوگوں کو بھی معلوم ہے۔ البتہ ان جذباتی کارکنان کا معاملہ الگ ہے، جو اپنے قائدین کے ہر الٹے کام کو بھی ’’مہا کاج‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
قارئین، ’’خپل وزیر اعلا‘‘ کی ناک کے نیچے (وزیر اعلا ہاؤس میں) جو کرپشن کا بازار ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ’’بندۂ خاص‘‘ نے گرم کیا ہوا ہے، اس کی تفصیلات میں سے سرِدست صرف یہ کہ ’’ بندۂ خاص‘‘ ہے تو ’’سپرنٹنڈنٹ‘‘ لیکن اس نے جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان میں گریڈ 16 کے ایک بندے کو گریڈ 19 کی پوسٹ پر بٹھا دیا ہے۔
مذکورہ بندہ جو آج کل گریڈ 19 کا افسر بنا پھرتا ہے کون ہے؟ اس بارے تفصیل اگلی تحریر میں ملاحظہ کیجیے گا، اِ ن شاء اللہ!
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔