ملکۂ عالیہ! دربارِ لاہور کے دروازہ میں مرزا غلام مرتضیٰ (میرا والد) ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہا۔ 1841ء میں جنرل رنجورہ کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا۔ اس سے پہلے اُسے ایک پیادہ فوج کا کماندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدہ یعنی حضرت شاہ اسماعیل ؒ اور ان کے ساتھیوں سے بالاکوٹ کی لڑائی میں سکھوں کی فوج میں شامل ہوکر ان مجاہدوں سے لڑتا رہا اور اس میں کارہائے نمایاں کیے۔ 1848ء کی بغاوت ہوئی، تو وہ اپنی سرکار سکھوں کا وفادار رہا اور سکھوں کی طرف سے لڑا۔ اس موقعہ پر راقم کے چچا غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ مَیں نہیں کہتا کہ سرکارِ انگلشیہ ان کی خدمات کو کبھی نہیں بھولے گی کہ فدوی کے باپ اور چچا نے 1857ء کے نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنے گرہ سے خریدے اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مہیا کرکے سرکارِ انگلشیہ کی امداد کے لیے دیے تھے۔ اس کے علاوہ فدوی کا بھائی مرزا غلام قادر تموں کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے انگریز سرکار کی مدد کی۔ غرض اس طرح میرے بزرگوں نے اپنے خون، اپنے مال، اپنی جان سے اور متواتر خدمتوں سے اپنے آپ کو حکومتِ برطانیہ کی نظروں میں وفادار ثابت کیا۔
اے قیصریۂ ہند! میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا، تا ہم 17 برس سے انگریزی گورنمنٹ کی امداد اور تائد میں اپنی قلم سے کام لیتا رہا ہوں۔ اس 17 برس کے عرصہ میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں، اُن سب میں سرکارِ انگلشیہ کی اطاعت اور ہمدردی کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور ممانعتِ جہاد کے بارے میں نہایت مؤثر بیانات لکھے اور قرینِ مصلحت سمجھ کر امرِ ممانعتِ جہاد کو عام ممالک میں پھیلانے کے لیے عربی اور فارسی میں کتابیں لکھیں جن کی چھپائی اور اشاعت پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے۔ مذکورہ کتابیں بلادِ عرب، شام، مصر، بغداد اور روم و افغانستان میں بھیجی گئیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کسی نہ کسی وقت ان کا اثر ہوگا۔
ملکہ محترمہ! اس قدر طویل کارکردگی اور مدتِ دراز تک وفاداری کیا ایسے انسان سے ممکن ہے کہ وہ دل میں بغاوت رکھتا ہو؟ پھر مَیں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکارِ انگلشیہ کی امداد، حفاظت اور جہاد کے خیالات کو روکنے کے لیے برابر 17 سال تک پورے جوش اور استقامت سے کام لیا ہے، کیا دوسرے مسلمانوں میں جو میرے خلاف ہیں اس کی نظیر ہے؟ اگر مَیں نے یہ اعانت انگریزی گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے نہیں کی، تو کیا مجھے ایسی کتابیں بلادِ عرب اور شام و روم میں شائع کرنے سے کسی انعام کی توقع تھی؟ یہ سلسلہ ایک دو دن کا نہیں برابر 17 سال کا ہے۔
اے ملکۂ ہند! تیرے وہ پاک ارادے ہیں جو آسمانی مدد کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تیری نیک نیتی کی کشش ہے جس کی وجہ سے آسمانِ رحمت زمیں کی طرف جھکتا جاتا ہے۔ سو تیرے عہدِ سلطنت کے سوا کوئی اور عہد ایسا نہیں جو ظہورِ مسیح کے لیے موزوں ہو۔ سو خدا نے تیرے نورانی عہد میں آسمان سے ایک نور نازل کیا۔ کیوں کہ نور، نور کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس یہ تیرے ہی وجود کی برکت، نیک دلی، نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا نتیجہ ہے کہ خدا نے تیرے عہد میں دنیا کے درد مندوں کو یاد کیا اور آسمان سے اپنے مسیح (غلام احمد) کو بھیجا جو تیرے ہی ملک اور تیرے ہی حدود میں پیدا ہوا۔
اے ملکۂ ہند! خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہدِ حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کررہا ہے اور تیری ہمدردیِ رعایا اور نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں۔ شریر ہے وہ انسان جو تیرے عہدِ سلطنت کی قدر نہیں کرتا اور بد ذات ہے وہ نفس جو تیرے احسانوں کا شکر گزار نہیں۔ چوں کہ یہ مسئلہ تحقیق شدہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، اس لیے مجھے چاہیے کہ مَیں اپنی زبان کی لفاظی سے اس بات کو ظاہر کروں کہ مَیں آپ سے دلی محبت کرتا ہوں اور میرے دل میں خاص طور پر آپ کی محبت اور عظمت ہے۔ ہماری دن رات کی دعائیں آپ کے لیے آبِ رواں کی طرح جاری ہیں۔ ہم سیاستِ جبری کے تحت مطیع نہیں بلکہ آپ کی انواع و اقسام کی خوبیوں نے ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔
بابرکت ملکۂ ہند! تجھے تیری عظمت اور نیک نامی مبارک ہو۔ خدا کی نگاہیں اس ملک پر ہیں جس پر تیری نگاہیں ہیں۔ خدا کی رحمت کا ہاتھ اس رعایا پر ہے جس پر تیرا ہاتھ ہے اور تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے۔ بعض احمق اور نادان پوچھتے ہیں کہ اس گورنمنٹ (برطانیہ) سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں؟ یہ سوال ان کا نہایت احمقانہ ہے۔ کیوں کہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے اس سے جہاد کیسا؟ میں سچ مچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی کا کام ہے۔ خدا کا فضل و کرم ہے کہ اُس نے ہمیں ایسی محسن حکومت کے زیرِ سایہ رکھا اور اگر ہم کسی اور سلطنت کے زیرِ سایہ ہوتے، تو یہ ظالم اور تباہ ملا ہماری آبرو اور جان کو تباہ کرتے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا بنایا، ایک بڑی امتیازی شان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ آئندہ اس کا انتظار ہے۔ہمارا یہ فرقہ بظاہر نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو جائز تسلیم کرتا یا سمجھتا ہے اور اس بات کو قطعاً حرام جانتا ہے کہ دین کے لیے لڑائیاں لڑی جائیں۔
(ذیل میں دیا جانے والا شعر بھی غلام احمد کا ہے)
چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال
دین میں حرام ہے اب جنگ اور قتال
ملتمس
خاکسارمرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب، 20اگست 1890ء
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔