ملک میں مروجہ سیاست کو بدنام کرنے میں جو بہت تکنیک سے حربے اختیار کیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بڑا الزام وارثتی سیاست کا ہے۔ چوں کہ ملک کی عمومی سیاست میں یہ کلچر رہا ہے کہ بڑوں کے بعد ان کے قریبی عزیز میدانِ سیاست میں آئے، سو یہ ایک جواز بن گیا کچھ سیاست مخالفین واسطے اور انہوں نے ’’وراثتی سیاست‘‘ کا بیانہ دے کر اپنے تئیں سیاست کو خوب بدنام کیا اوراب تک کر رہے ہیں۔
یہ بات ایک حد تک بالکل درست ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں بذاتِ خود جمہوریت بالکل نہیں اور جس طرح ایک سیاسی جماعت کی تشکیل و فروغ متقاضی ہے، ویسا بالکل نہیں۔ لیکن اس کو کلی طور پر محض اس بنیاد پر مسترد کر دینا کہ چوں کہ کسی لیڈر کے بعد اس کی اولاد آگئی ہے، بھی غلط ہے۔ یہ صحیح ہے اگر ان سیاسی قائدین کے بعد ان کے رشتہ دار یا اولاد آتی ہے، تو ان کو مروجہ جمہوری اور سیاسی طریقۂ کار کے تحت آنا چاہیے، جس طرح امریکہ میں ’’کینیڈی خاندان‘‘، ’’بش خاندان‘‘ اور ’’کلنٹن خاندان‘‘ آیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر اس حد تک بالغ نہیں ہوا کہ ہم اس طریقۂ کار سے آئیں۔
ہماری موجودہ سیاسی قیادتیں دو وجوہات کی بنیاد پر سیاسی قائد بنیں۔ ایک تو ہم قدرتی طور پر جذباتی قوم ہیں اور ہم عمرانی قانون کے تحت جماعت سے لیڈر شپ کے پیدا کرنے کو قبول نہیں کرتے، بلکہ لیڈر کی شخصیت کے دم سے تمام جماعت کو بِنا منشور اور کردار جانے کارکنان قبول کرنے کے عادی ہیں، اور جب ایک لیڈر جاتا ہے، تو اس کی جگہ کسی اور کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔
دوسرا، تقریباً تمام جنوبی ایشیا میں قیادت کی تبدیلی ایک مخصوص اور غیر معمولی حالات میں ہوئی۔ مثلاً فلپائن میں ’’اکینو‘‘ کے ساتھ زیادتی نہ ہوتی، تو بیگم کوریزن اکینو شاید نہ بنتی۔ سری لنکا میں بندرانائیکے خواتین بھی اسی طرح آئیں، اس کے علاوہ بھارت میں گاندھی خاندان بہت خون دے کر آیا۔ بنگلہ دیش میں واجدہ شیخ اور خالدہ ضیاء بھی سانحات کی پیداوار تھیں اور پاکستان میں بھی بھٹو خاندان اور شریف فیملی کی اولادیں نارمل اور عام حالات میں تو نہ بنی تھیں۔
اب بھٹو خاندان کو لیں، جب ذوالفقار علی بھٹو کو ظالمانہ طریقہ سے ختم کیا گیا، تو پی پی کے پاس نصرت بھٹو کے علاوہ کوئی چوائس نہ تھی، جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے بنا کسی جماعتی عہدے کے انتہائی سخت حالات میں جد و جہد شروع کی، لیکن جب سن 86ء میں محترمہ دوبارہ آئیں، تو وہ ضیا کے مخالف واحد ’’کراؤڈ پلر‘‘ راہنما تھیں۔ انہوں نے ہی عوامی مقبولیت کو قائم رکھا۔ وگرنہ اعتزاز احسن، فیصل صالح حیات، آفتاب شیرپاؤ، اسلم رئیسانی وغیرہ کیا یہ کرسکتے تھے یا عوام ان کو قبول کرلیتے؟
خیبر سے کراچی تک ٹرک پر سوار ہو کر ایک نوجوان خاتون کا ایک آمر کے مقابل اس طرح ڈٹ جانا بہرحال محترمہ کی محنت، دلیری اور سیاسی عقل کا ثبوت تھا۔ جس کے بعد بی بی کو شریک چیئرمین بنایا گیا۔ اس کے بعد عین انتخابات کے بعد جب بی بی کی مظلومانہ شہادت ہوئی، تو پی پی کے پاس کیا چوائس تھی؟ تب پی پی والے یہ جانتے تھے کہ اب ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے چہرے کی کہ جس کو ہم بینظیر کے متبادل کے طور پر دکھا سکیں، سو انہوں نے بی بی کے بیٹے کو بنانا بطورِ سیاسی حکمت عملی کے مناسب سمجھا۔
اسی طرح نواز شریف کو جب ایک آمر نے جلاوطن کیا، تو ان کی محبوری بنی لیکن پھر بھی انہوں نے راجہ ظفر الحق اور جاوید ہاشمی کو رسمی اختیار ضرور دیا۔ اب مریم نواز شریف جب محض نواز شریف کی بیٹی تھی، کسی رسمی عہدے پر نہ تھی، تو تب بھی کراؤڈ پلر وہی تھی۔ کیا خواجہ آصف یا سعد رفیق عوام کو ساتھ رکھ سکتے تھے؟ سو مریم بی بی نے پہلے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر نائب صدر بنی۔ اسی طرح جو دوسری چھوٹی جماعتیں ہیں، ان میں سے مثلاً اے این پی کا ورکر کبھی باچا خان کے خاندان کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتا۔ بی اے پی والے عطاء اﷲ مینگل کے بیٹے اختر مینگل کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کرتے، حتی کہ کل کی بات ہے لبیک والوں کو جناب خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کو ہی سربراہ بنانا پڑا۔
اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ مثال کے طور پر آج نواز شریف کا جہاں ایک بہت بڑا ووٹر حلقہ مریم کو ملا، وہاں مریم کو اس بیگ ایج کا مکمل بوجھ بھی اٹھانا پڑا، جو نواز شریف کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے لبریز ہے۔ آج بھی سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق بلاول بھٹو تمام سیاست دانوں میں سے زندگی کے رسک پر اول نمبر ہے اور اس کو واضح دھمکی مل چکی ہے کہ ہم تمہارا حشر بھی ویسا ہی کریں گے، جیسا تمہاری ماں کا کیا۔ لیکن وہ نوجوان اپنی جگہ ماں کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ تو اس پہلو پر اگر غور کیا جائے، تو یہ ایک مثبت قدم بھی ہے۔ کیوں کہ سیاسی وراثت کا وراث بننا اتنا آسان اور پُرکیف بھی نہیں۔ ان کے کارکنان کے نکتۂ نظر سے دیکھا جائے، تو ان کا بیانیہ یہ ہے کہ ہم مشکور ہیں قیادت کے، وہ تمام تر نامناسب حالات کے باجود بھی اپنے بیٹے بیٹیاں اس سیاست کے خار دار میدان میں اتارتے ہیں اور ان کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ کو بھی یہ فائدہ ہوتا ہے۔ بھٹو کے بعد ان کی بیٹی اور پھر ان کے نواسوں کے بدلے جب کہ نواز شریف کی بیٹی کی وجہ سے ان کی جیت یقینی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی اس پر زیادہ اعتراض کرنا قطعی نامناسب ہے۔ دنیا میں عمومی طور اگر ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، وکیل کی بیٹی وکیل بنتی ہے، تو سیاست دان کی اولاد سیاست دان ہی بنے گی اور یہ بات بھی مدنظر رہے کہ دنیا کے ہر شعبہ کا ایک میرٹ ہوتاہے۔ آپ کو اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ سو اس فارمولے کے تحت سیاست کا حتمی اور قطعی میرٹ ہوتا ہے ’’عوام میں قبولیت۔‘‘ اب عوام اگر اپنے سابقہ قائدین کے بچوں یا رشتہ داروں کو ہی شرفِ قبولیت بخشتے ہیں، تو اس میں نظام کا قصور ہے اور نہ جماعتوں کا۔ اس کی مثال آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اندرا گاندھی کی مقامی بہو کہ جس کا خاوند نسبتاً قابل سیاست دان تھا اور وہ خود بھی شاید مناسب حد تک قابل تھیں، کو قبول نہ کیا گیا جب کہ دوسری غیر ملکی بہو کہ جو نہ سیاست سمجھتی تھی، نا اس قابل تھی، لیکن عوام نے اس کو قبول کر لیا۔ اسی طرح بھٹو خاندان میں عوام نے نہ بھٹو صاحب کے بڑے صاحبزادے کو قبول کیا اور نہ اس کی غیر فطری موت کہ جس کا الزام خود بھٹو کی بہو نے براہِ راست بھٹو کی بیٹی پر لگایا، لیکن اس کے باجود عوام نے بھٹو کے بیٹے بہو اور پوتی کو قبول نہ کیا، بلکہ دوسرے خاندان میں بیاہی گئی بیٹی اور پھر نواسے کو۔ مطلب خاندانی ہونا آپ کا اثاثہ تو ہے، لیکن یہ کوئی حتمی معیار بالکل نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خیبر پختون خوا کا بلور خاندان، راجہ ظفر الحق، شاہد عباسی، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف آگے لائے گئے، مگر وہ انتظامی و سیاسی عہدہ رکھنے کے باجود بھی عوامی قبولیت کی اس معراج کو نہ پہنچ سکے جہاں پرانے لیڈران کی نسل اور اولاد۔
ہم اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ صورتِ حال بیشک قابل قبول ہے، لیکن کسی صورت میں بھی آئیڈیل نہیں۔ ایک مناسب صورت حال تو یہی ہے کہ جماعتوں میں ایک مروجہ طریقۂ کار ہو اور اگر کسی بڑے لیڈر کا رشتہ دار سیاست میں آنا چاہے، تو اس کو بھی اسی طریقۂ کار کے تحت مواقع ملیں، اور اگر وہ جدو جہد اور محنت کرتا ہے، تو اس واسطے مواقع ہوں۔ محض کسی بڑے لیڈر کی رشتہ داری کی وجہ سے ہی راتوں رات جماعت میں نمبر ون بن جائے۔یہ قطعی جمہوری اور سیاسی رویہ بالکل نہیں۔ اس واسطے بجائے ہم اب ان جماعتوں پر تنقید کریں، سیاست کو بدنام کریں، ہمیں چاہیے کہ بطورِ سول سوسائٹی ایک پریشر گروپ کا کردار ادا کریں اور عوامی سطح پر ایک دباؤ بڑھائیں۔ عوام کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنائیں۔ عوامی سطح پر احتجاج کیا جائے۔ پھر یقینا سیاسی جماعتیں اس دباؤ کے تحت اپنی لیڈر شپ کی اولادوں کو اس طرح اوپر لیول پر مسلط نہ کریں گی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس آڑ میں سیاست کو بدنام کر کے آمروں واسطے فضا تشکیل دی جائے۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔