’’لوری‘‘ ایک ایسی نظم ہے جسے مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے بڑے پیار اور محبت سے گنگناتی ہیں اور ساتھ ساتھ بچے کو تھپکیاں بھی دیتی رہتی ہیں۔ اس دوران میں بچے کو انہوں نے اپنے سینے لگایا ہوتا ہے یا پھر جھولے میں ڈال کر اسے جھولے دیتے ہوئے یہ نظم گائی جاتی ہے۔
ہماری فلموں میں بھی لوریاں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ لوری میں ماں کے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔
لوری کے حوالے سے ابو الاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں: ’’لوری کا مواد بچے کے درخشاں مستقبل کی توقعات، اس کی کامیاب زندگی کی پُرخلوص دعاؤں اور ضمناً اس کے متعلقین کی تعریف و تحسین پر مشتمل ہونا ہے، جذباتی معصومیت، سادگی، بے ساختگی، شیرینی، دل کشی، مقامی رنگ اور گہرے معاشرتی نقوش عام لوک گیتوں کی طرح لوریوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ‘‘
لوری عموماً بیٹوں کو دی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے لیے لوری نہیں ہوتی۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے شریف کنجاہی لکھتے ہیں: ’’بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں اور والدین کی تمناؤں کا مرکز نہیں بن سکتیں، یہی وجہ ہے کہ لوریاں ان کے بارے میں خاموش ہیں۔‘‘
بیٹیوں کے لیے ’’رخصتی‘‘ ایسی نظم تو موجود ہے، جس میں بابل کے گھر سے رخصتی کے وقت پڑھا اور فلموں میں گایا جاتا ہے۔ دورِ جدید میں ایسی بعض اُردو لوریاں ملتی ہیں، جن میں بیٹیوں کا بھی تھوڑا بہت ذکر ملتا ہے۔
ایک پنجابی لوری کے چند بند ملاحظہ ہوں:
بول بول نی نینداں دئیے پرئیے
کاکے دا ویاہ اسی کدوں کرئیے
اوں اوں اوں
بول بول نی سترائیے نیندے
راجے دے پتر کیہ کھاندے نیں نیندے
اوں اوں اوں
کنک دی روٹی تے مجھ دا دُدھ
راجے دے پتراں دی وڈی وڈی بدھ
اوں اوں اوں
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 23 مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 175 اور 176 سے انتخاب)