19 درہم کی رقم تمام لڑکوں میں تقسیم کی گئی۔ کیوں کہ لڑکوں کے باپ کا انتقال ہوا تھا اور جائیداد کا بٹوارا ہورہا تھا۔ مرنے والے نے اپنے پیچھے 21 دینار چھوڑے تھے۔ ان میں سے 2 دینار قبر کی زمین خریدنے کے لیے ادا کیے گئے، 5 دینار کفن اور دوسری چیزوں پر لگے اور باقی رہے 14 دینار، تو ان کے درہم بناکر ورثا میں تقسیم کیے گئے۔
یہ اللہ کے جس بندے نے وفات پائی تھی، کوئی معمولی انسان نہ تھا بلکہ تاریخِ اسلام میں ان کا شمار عظیم حکمرانوں میں ہوتا ہے، یعنی پانچواں خلیفہ راشد جن کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ایک کے علاوہ دوسرا لباس اس کے پاس نہ تھا۔ بیت المال کو وہ عوام کی امانت سمجھتا تھا اور اسے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا خیانت اور گناہ خیال کرتا تھا۔
مسلم بن مالکؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا آخری وقت آپہنچا، تو مَیں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنی اولاد کا منھ ہمیشہ خشک رکھا اور آپ انہیں ایسی حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں۔ فرمایا، یہ کہنا کہ مَیں نے ہمیشہ ان کا منھ خشک رکھا، غلط ہے۔ خدا کی قسم، مَیں نے اپنی اولاد کا حق کبھی تلف نہیں کیا اور جس چیز میں ان کا حق نہیں تھا، انہیں کبھی نہیں دی، یعنی (ناجائز مراعات)۔ مَیں انہیں وصیت کیوں کروں۔ جب کہ مَیں نے ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ میری اولاد اگراللہ سے ڈرے گی، تو وہ ان کے لیے کوئی صورت نکال لے گا، اور اگر خدانخواستہ وہ برا بننے والی ہے، تو مَیں دولت چھوڑ کر انہیں مزید برا ہونے کے اسباب مہیا نہیں کروں گا۔
پھر انہوں نے اپنے لڑکوں کو بلایا، انہیں دیکھ کر آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اپنے پاس بٹھا کر فرمایا، تم پر میری جان قربان! تمہارے لیے مَیں نے دولت نہیں چھوڑی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ مَیں نے تمہاری بہترین تربیت کرکے صراطِ مستقیم پر چھوڑا ہے۔
بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر لوگوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب کسی کے پاس کوئی سرکاری عہدہ یا کوئی اور ذمہ داری جسے عُرفِ عام میں موٹی اسامی کہتے ہیں، ہو خواہ عام آدمی ہو یا سیاست دان، تو وہ سرکاری وسائل کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سرکاری خزانے کا ایک پیسا بھی ناجائز طور پر ہڑپ کرنا 22 کروڑ عوام کا حق ہڑپ کرنے کے مترادف ہے، اور بروزِ قیامت 22 کروڑ عوام ہی خدا کے ہاں اپنے حق کے سلسلے میں استغاثہ کریں گے۔
شواہد سے ثابت ہے کہ اولاد کے لیے ناجائز دولت کمانے اور انہیں لقمۂ حرام کھلانے کے انتہائی برے نتائج نکلتے ہیں۔ عموماً حرام پر پلی ہوئی اولاد نافرمان ہوتی ہے اور بے راہ روی کا شکار ہوکر والدین کے لیے دردِ سر بن جاتی ہے، بلکہ بعض راشی سرکاری افسران، عہدہ دار اور بدعنوان سیاست دان اور عوامی نمائندگان کو خود بھی احتسابی اداروں اور عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندگی کا کافی حصہ پیشیاں بھگتنے میں گزر جاتا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو حرام کی کمائی سے بچ کر اپنے بچوں کو لقمۂ حلال کھلاتے ہیں اور اپنی اولاد کی بہتر تربیت کرتے ہیں۔ یقینا ایسی اولاد والدین کے لیے سعادتِ دارین کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔