اس کہاوت کا مطلب ہے، ’’یہاں مطلب حاصل نہ ہوگا۔‘‘ نہایت خسیس، بخیل اور بے فیض شخص کے لیے یہ مثل کہی جاتی ہے۔ اس کے پس منظر میں ایک حکایت ہے، جو اس طرح مشہور ہے۔
’’ہندوستان میں جمہوری نظام سے پہلے زمین دار اور مہاجن دونوں کسانوں کا استحصال کرتے تھے اور لوٹ کھسوٹ کے کردار تھے۔ زمین دار کی زندگی میں ساری رونق کسانوں کی محنت سے تھی اور مہاجن کے مزے زمین دار اور کسانوں کی وجہ سے تھے۔ ایک مرتبہ ایک گاؤں کے زمین دار نے اپنے بیٹے جسے ’’کنور صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا، کو قریب کے ایک گاؤں میں اپنے مہاجن کے پاس پانچ سو روپے قرض لینے کے لیے بھیجا۔ مہاجن نے کنور صاحب کی خوب خاطر مدارات کی اور پانچ سو کی رقم ان کے حوالے کردی۔ رقم لے کر وہ اپنے گاؤں کی طرف چل دیا۔ اس راستے میں گھونگٹ کاڑھے ہوئے ایک جوان عورت نظر آئی جو اپنے سر پر رکھے ہوئے پیتل کے کٹور دان کو اپنے ایک ہاتھ سے تھامے ہوئے تھی اور ایک ہاتھ میں چمکتی ہوئی پیتل کی لٹیا لیے تھی جس میں پانی بھرا ہواتھا۔ وہ اپنے شوہر کو کھیت پر کھانا دینے جا رہی تھی۔ کنور اس کے پیچھے لگ گیا۔ آہٹ پا کر عورت نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ کنور اس عورت کے قریب آ کر گانے کے لہجے میں کہنے لگا:
جو سندر مکھڑا دِکھاوے
پانچ سو کی تھیلی پاوے
عورت کے دل میں لالچ پیدا ہوا اور وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ اب اس کا کھیت تھوڑی دور رِہ گیا تھا۔ اس نے گھونگٹ پلٹ دیا اور کنور کی پانچ سو کی تھیلی اپنے قبضہ میں کرکے تیزی سے اپنے کھیت کی طرف چل دی۔ اس کے پیچھے کنور بھی چلتا رہا۔ جب کنور کھیت کی مینڈھ کے قریب پہنچا، تو اس کی نظر ایک تنو مند جوان کسان پر پڑی جو اس عورت کا شوہر تھا۔ کنور ٹھٹک کر رُک گیا اور معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرکے اُلٹے پاؤں لوٹ پڑا۔ بغیر رقم کے گھر جانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا وہ کچھ سوچ کر پھر مہاجن کے پاس پہنچا اور دوبارہ پانچ سو روپے اس سے طلب کیے۔ مہاجن نے اس کے انداز اور وحشت سے بھانپ لیا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ صاف صاف بیان کرو۔ کنور نے مہاجن سے سب حال کہہ سنایا۔ مہاجن نے کہا کہ تم میرے ساتھ اسی کھیت تک چلو۔ مَیں تم کو سارے روپے دلا دوں گا۔ مہاجن نے کنور کو ساتھ لیا اور دوسری طرف سے بیچ کھیت داخل ہوگیا۔ وہ کھیت تِلوں کا تھا۔ کسان کھیت میں کھانا کھا رہا تھا۔ اس کی بیوی پاس بیٹھی تھی۔ مہاجن ان دونوں کی طرف بڑھتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا: ’’ان تِلوں میں تیل نہیں!‘‘ کسان اور اس کی بیوی نے مہاجن کی جب یہ بات سنی، تو کسان، مہاجن سے مخاطب ہوکر بولا، ’’حضور، کیا آج زمین دار صاحب کے بیٹے کنور صاحب کو کھیت کی جنس دلانے آئے ہیں؟ فصل تو اچھی ہے۔ کیا کنور صاحب خریدنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ عورت، کسان اور زمین دار کی باتوں کو سن رہی تھی۔ اسے شک ہوا کہ زمین دار کے بیٹے نے مہاجن کو ساری بات بتا دی ہے اور اب مہاجن کسان یعنی اس کے شوہر سے اس کی شکایت کرنے آیا ہے۔ عورت مسکرا کر بولی، ’’مَیں نے زمین دار کے بیٹے کو اَب سے کچھ دیر پہلے راستے ہی میں کھیت کی جنس بیچ دی ہے اور پانچ سو روپے پیشگی بھی لے لیے ہیں، جو میرے پاس ہیں۔‘‘ مہاجن نے اب اور قریب آکر سنانے کے لیے زور زور سے کہنا شروع کردیا، ’’اِن تِلوں میں تیل نہیں! نقصان ہوگا اور رقم ڈوب جائے گی۔ ‘‘ کسان کو اپنی فصل کی برائی نہایت ناگوار ہوئی۔ وہ جھنجھلا کر کھڑا ہوگیا اور مہاجن سے کہنے لگا، ’’ساہوکار جی، کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اگر اِ ن تلوں میں تیل نہیں، تو کیا ہم نے آپ کی رقم ہڑپ کرلی ہے یا بے ایمانی کرجائیں گے؟ یہ دھری ہے ساری رقم۔ مَیں زبردستی اپنی فصل کیوں بیچنے لگا! یہ عورت کی ناسمجھی تھی، جو کنور صاحب سے میری غیر موجودگی اور بِنا مجھے بتائے راستے میں سودا کرلیا۔ یہ لیجیے، اٹھائیے اپنی رقم!‘‘ مہاجن نے روپیوں سے بھری تھیلی اٹھا کر اپنے قبضہ میں کی اور کنور کو دے کر اس کے گھر روانہ کیا۔ عورت مسکراتی رہی اور کسان فخر سے اپنی فصل کو دیکھتا رہا۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘، صفحہ 39 اور 40سے انتخاب)