2009ء میں سوئٹزر لینڈ میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے تین سو انچاس لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف ایک سال میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے اتنی اموات ہوئیں۔ سوئٹزر لینڈ کی بات میں اس لیے کر رہا ہوں، کیونکہ وہاں کی زیادہ تر سڑکیں پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں ۔
اس مسلئے پر سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو شدید تشویش تھی کہ کیسے اس کو ختم یا کم کیا جائے؟ اس کیلئے سوئس حکومت نے کچھ اقدام کیے۔ پہلے مرحلے میں تمام ٹریفک حادثات کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔ اس کے بعد تمام سڑکوں کا، پبلک اور نجی گاڑیوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔ سڑک کے کنارے حفاظتی پشت اور دیواروں کا معائنہ کیا گیا، جہاں کمی یہ کمزوری محسوس کی گئی کہ اس کو اچھی طرح سے مرمت اور مضبوطی سے تعمیر کیا گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال کی گئی اور اس کے بعد جہاں جہاں ان کو کمی یا کمزوری نظر آئی، اس پہ کام کیا گیا۔
2015ء کو ایک سروے کیا گیا جس سے ان اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی اور اموات کی شرح دو سو انسٹھ تک آپہنچی ۔ تو یہ تھی سوئٹزرلینڈ میں انسانی جان کی قدر۔ کیوں کہ ان لوگوں کو انسانیت سے محبت ہے، انسان کی قدر کرتے ہیں وہ لوگ۔ میں کبھی سوئٹزرلینڈ نہیں گیا لیکن یہ ساری معلومات اِدھر اُدھر سے حاصل کی گئی ہیں۔
اب آتے ہیں اپنے ملک کی ٹریفک صورتحال کی طرف اور اس کے قوانین کو ذرا ملاحظہ کرتے ہیں۔ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس پہ لکھنا بہت مشکل ہے لیکن میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اول تو 2011ء کے بعد ان کے پاس اعداد و شمار ہیں ہی نہیں کہ کتنے حادثات ہوئے ہیں؟ جہاں تک میں نے انٹرنیٹ پہ اسے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دوسری جو اہم پیشرفت ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ 03-2002ء کی شماریات کے مطابق 4813 لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ جو آخری سروے 11-2010ء میں ہوا ہے، اس کے مطابق 5271 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پاکستان بیرو آف سٹیٹسٹک کی ویب سائٹ پر یہ معلومات موجود ہیں۔
ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ ملاکنڈ (خیبرپختونخوا کا ضلع) کی مرکزی شاہراہ پر ایک فلائنگ کوچ کو حادثہ پیش آیا جو سڑک سے گر کر نیچے پہاڑوں میں جا گری۔نتیجتاً دو افراد جاں اور تین شدید زخمی ہوئے اور باقی پندرہ کو معمولی سی چوٹیں آئیں۔ ملاکنڈ میں گاڑیوں کا حادث کوئی خاص بات نہیں بلکہ ہر مہینے دس بارہ جاں بحق افراد کا حادثہ تو ایک عام سی بات ہے۔ سالانہ درجنوں گاڑیاں ملاکنڈ میں حادثات کا شکار ہوتی ہیں اور درجنوں لوگ موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ اول تو سڑک کے کنارے بعض جگہوں پر حفاظتی پشتوں یا دیواروں کا نہ ہونا ہے، اور جہاں یہ ہیں، وہ اس قابل نہیں کہ کسی گاڑی کو حادثہ سے روک سکے۔ دوسری بڑی وجہ، پبلک ٹرانسپورٹ کی زیر استعمال گاڑیوں کی حالت اتنی ابتر ہے کہ انہیں دیکھتے ہی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ کس زمانے کی گاڑیاں ہیں؟
تیسری بڑی وجہ ضرورت سے زیادہ لوگوں گاڑیوں میں بٹھایا جانا ہے۔ چہارم، سڑک کی حالت جگہ جگہ ایسی ہے جس سے موت خود بخود انسان کے گلے پڑ جاتی ہے اور پانچویں اور اہم وجہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے زیادہ تر لوگ گاڑی چلاتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت ایک ہی وقت میں ان سارے مسائل کو حل کرلے۔ کیونکہ اول تو یہ اس کے بس کی بات نہیں اور دوم اس کی دلچسپی بھی اس علاقے میں زیادہ نہیں ہے۔ ملاکنڈ لیویز جو بازار میں سڑک کے کنارے غریب سبزی والے کو چھوڑتے نہیں، دوسری جانب اس سنگین اور خطرناک مسئلے کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ، دو ایم پی اے صاحبان شکیل احمد خان اور محمد علی شاہ باچا اور قومی اسمبلی ممبر جنید اکبر کو اس دیرینہ مسلئے پر غور کرنا چاہیے اور اس کا قابل قبول حل نکالنا چاہیے۔ کیونکہ آپ لوگوں کا بھی اس راستے سے گزر ہوتا ہیے۔ خدا کیلئے انسانی جانوں پہ تھوڑا سا رحم کھائیے۔ اگر آپ لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے، تو صوبائی حکومت سے اس پہ بات کریں، اگر اُس کے اختیار میں بھی نہیں ہے، تو مرکزی حکومت سے اس مسلئے پر بات کریں۔ کب تک ان جان لیوا حادثات سے معصوم انسانیت کا قتل عام ہوتا رہے گا؟