سیاسی پارٹیاں، اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی یا خلائی مخلوق کی جتنی بھی مخالف ہوں لیکن درپردہ وہ انہی عناصر سے خفیہ طور پر ملاقاتیں اور مذاکرات کرتی ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھتی ہیں۔ ان کے تند و تیز بیانات اپنے لیے محفوظ راستہ نکالنے کے لیے ہوتے ہیں۔
قارئین، "پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ” (پی ڈی ایم) میں شامل دو بڑی سیاسی پارٹیاں پہلے سے یہ کھیل کھیلتی چلی آ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ کے مولانا فضل الرحمان تو اول روز سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، اور ان کی حکومت گرانے کی کوششوں میں لگے ہیں، لیکن اُن کے اُس وقت کے اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ نون کے میاں محمد نواز شریف اُن کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے۔ گذشتہ سال دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے مولانا فضل الرحمان کو میدان میں اُتار تو دیا، لیکن عین وقت پر انھیں تنہا بھی چھوڑ دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ’’کو چیئرمین‘‘ اور سابق صدر آصف علی زرداری کو جب یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ گھیرے میں آنے والے ہیں، تو وہ اس طرح تند و تیز بیانات سے ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے شور شرابہ شروع کر دیتے ہیں۔ قومی انتخابات 2018ء کے بعد بعض مقتدر حلقوں کی طرف سے انھیں بعض یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ آصف علی زرداری کو جب یہ محسوس ہونے لگا کہ اُن کے ساتھ طے پانے والے معاملات پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا، ان کے خلاف مزید مقدمات بن رہے ہیں، مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا بندوبست ہو رہا ہے اور جب زرداری کو سندھ حکومت ہاتھ سے جانے کا اندیشہ پیدا ہوا، تو اُس وقت سے آصف علی زرداری ایک نظریاتی سیاست دان بن کر ریاستی اداروں کے پیچھے پڑگئے۔
اس طرح پاکستان مسلم لیگ نون بھی خفیہ مذاکرات اور ملاقوں سے راستہ نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی، اور ان کے مقتدر حلقوں سے معاملات طے پاگئے تھے۔ اس لیے میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کافی عرصہ تک خاموش بیٹھے رہے۔ میاں محمد نواز شریف کو بھی جب یہ محسوس ہونے لگا کہ انھیں استعمال کیا جارہا ہے۔ ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ان کی بیٹی کو لندن آنے نہیں دیا جا رہا، اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، تو بیٹی سمیت آئین کے تحفظ کا بیڑا اُٹھا لیا۔
دوسری طرف اب جب آصف علی زرداری پر ضرب پڑنے لگی، تو اُس نے مولانا فضل الرحمان کو ایک بار پھر میدان میں اُتارنے کا پلان بنا دیا۔ آصف علی زرداری نے مولانا صاحب سے ملاقات کی اور انھیں یقین دلایا کہ وہ اس بار میدان میں ڈٹ کر انقلاب لانے کو تیار ہیں۔
میاں محمد نواز شریف، زبیر عمر کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد مایوسی کا شکار ہوچکے، تووہ بھی اپوزیشن کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں سمیت مولانا فضل الرحمان کوحکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے پر قائل کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘‘ پی ڈی ایم نام کا اتحاد بنا کر مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ مولانا صاحب پی ڈی ایم اتحاد کے تشکیل پانے پر مطمئن تھے کہ اتحاد سے نکلنا کسی بھی پارٹی کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں ہوگا۔ مولانا کی مطمئن ہونے کی دوسری وجہ آصف علی زرداری کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عندیہ تھا۔ کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو گرانے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ مولانا کی مطمئن ہونے کی تیسری وجہ پی ڈی ایم کے تاسیسی اجلاس سے میاں محمد نواز شریف کا خطاب تھا، جس میں میاں صاحب نے ایسا لب و لہجہ اختیار کیا تھا جس سے یہ لگ رہا تھا کہ میاں صاحب نے ساری کشتیاں جلا دی ہیں۔
پی ڈی ایم کے تشکیل پانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام نے پی ڈی ایم کے ابتدائی اجلاسوں میں ایسا رویہ اختیار کیا جو مقتدر حلقوں اور حکومت کے لیے باعثِ تعجب تھا۔ عوام کی طرف سے پی ڈی ایم کو جو پذیرائی ملی، اُس نے ایوانِ اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کا رویہ دیکھ کر مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر قوم پرست سیاسی پارٹیاں اس غلط فہمی کا شکار ہوگئیں کہ آصف علی زرداری نظریاتی بن چکے ہیں، لیکن مصالحت کے بادشاہ زرداری نے ایسا پلٹا کھایا کہ اتحاد میں شامل پارٹیاں حیران رہ گئیں۔ پی پی پی نے ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پارٹی میدان کھلا چھوڑنے کی بجائے ہر فورم (ضمنی اور سینٹ الیکشن) پر حکومت کا مقابلہ کرے گی، اور سسٹم کے اندر رہ کر تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی۔ آصف علی زرداری نے میاں محمد نواز شریف کو ہم نوا بنانے کے لیے میاں صاحب سے رابطہ کیا اور میاں صاحب پھر سے نظریاتی ہونے کی بجائے پاؤر پالیٹکس والے نواز شریف بن گئے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر قوم پرست سیاسی پارٹیاں آصف علی زرداری کے سامنے بے بس اور زرداری ان پر بھاری نظر آ رہے ہیں۔ مولانا صاحب اور اتحاد کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے اتحاد سے نکلنا اپنے آپ سیاسی موت مرنے کے برابر ہے۔ اس لیے وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی جوڑ توڑ کی سیاست کو وقت دینے پر مجبور ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکروں کا یہ نعرہ کہ ’’ایک زرداری سب پے بھاری‘‘ دوسروں سیاسی پارٹیوں کے لیے درست ثابت ہو یا نہ ہو، البتہ زرداری پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے لیے بھاری ضرور ثابت ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ زرداری کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی اور پی ڈی ایم میں بھی وہ دم خم انہیں رہا جو پاکستان تحریک انصاف حکومت کو گرا کر عمران خان کو استعفا دینے پر مجبور کرسکے۔ مولانا اگر راحت اندوری کے اس شعر پر عمل کرتے
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
تو مولانا، راحتؔ ہی کے ذیل میں دیے جانے والے شعر کی طرح سوچ میں نہ پڑتے کہ
بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا
یہ ندی کیسے پار کی جائے؟
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔