کسی ایک شاعر کی کہی ہوئی پانچ مثنویوں کا مجموعہ ’’خمسہ‘‘ کہلاتا ہے۔
پانچ مثنویوں کا پہلا مجموعہ سب سے پہلے نظامی گنجوی نے خمسہ پنج گنج کے عنوان سے تصنیف کیا۔
دولت شاہ سمر قندی کے مطابق نظامی گنجوی نے یہ پانچ مثنویاں بیک وقت نہیں کہی تھیں بلکہ مختلف اوقات میں کہی گئی تھیں، جنہیں بعد میں ایک جلد میں کرکے خمسہ کے نام دیا گیا۔ ان کے خمسہ میں جن مثنویوں کو جمع کیا گیا، ان میں ’’مخزن الاسرار‘‘، ’’خسرو شیریں‘‘، ’’لیلیٰ مجنوں‘‘، ’’ہفت پیکر‘‘ یا ’’بہرام نامہ‘‘ اور ’’سکندنامہ‘‘ شامل ہیں۔
نظامی گنجوی کی تقلید میں کئی شعرا نے اپنی مثنویوں کو یک جا کرکے اسے خمسہ کا نام دیا ہے۔ ان میں امیر خسرو، خواجہ کرمانی، جامی، میر علی شیر نوائی اور فیضی کے خمسے شامل ہیں۔
جامی نے خمسہ کے بجائے ’’سبعہ‘‘ بنا دیا تھا۔ کیوں کہ ان کے پاس پانچ مثنویوں کے بجائے صرف چار مثنویاں سلسلۃ الذہب، سلامان و ابسال، تحفۃ الاحرار، سجۃ الابرار، یوسف زلیخا، لیلیٰ مجنوں اور خرد نامہ سکندری پر مشتمل تھیں۔
فیضی کے خمسے حسبِ ذیل مثنویوں پر مشتمل تھے:
مرکزِ ادوار، سلیمان و بلقیس، نل دمن، ہفت کشور اور اکبر نامہ۔
خواجہ کرمانی کے خمسے میں ’’روضۃ الانوار‘‘، ہماد ہمایوں‘‘، ’’گلِ نوروز‘‘، ’’کمال نامہ‘‘ اور ’’گوہر نامہ‘‘ شامل ہیں۔
(ڈاکٹر ہارون الرشید کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘، سنہ اشاعت 2018ء کے صفحہ نمبر 114 سے انتخاب)