بی آر ٹی پشاور، معاشی و معاشرتی ترقی کا ایک خواب

بس ریپڈ ٹرانزٹ پشاور (بی آر ٹی) پاکستان میں ٹرانسپورٹ کا سب سے جدید ترین منصوبہ ہے۔ بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ اپنی اِفادیت میں منفرد ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے سیاسی طور پر حساس بنا دیا گیا ہے۔ جس قدر تنقید اس منصوبے پر ہوئی شائد ہی پاکستان کے کسی منصوبے پر ہوئی ہو، لیکن جب بی آر ٹی چل پڑی، تو تنقید کی بجائے عوام کی طرف سے زبردست پزیرائی ملنا شروع ہوگئی۔
13 اگست 2020ء کو بی آر ٹی کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے کیا۔ یہ تحریک انصاف کا فلیگ شپ پراجیکٹ تھا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان لاہور اور پنجاب کے دیگر میٹروز پر تنقید کرتے حتیٰ کہ پشاور بی آر ٹی سسٹم کے بھی خلاف تھے، لیکن پرویز خٹک نے اس منصوبے کے لیے خاں صاحب کو قائل کر ہی لیا۔ افتتاح کے موقع پر ٹرانس پشاور کے آفس میں خان صاحب نے برملا کہا کہ بی آر ٹی پشاور کے فیچرز دیکھ کر لگا کہ میں غلط تھا اور خٹک صاحب درست تھے۔
بی آر ٹی پشاور ایسا عظیم منصوبہ ہے جس نے پشاور کے عمومی ماحول ہی کو بدل دیا۔ ویگنوں اور بسوں کے عادی عوام شائد ایک ایسی سروس کے لیے مدتوں سے ترس رہے تھے جو ان کے دکھوں کا مداوا بنے، جو ان کو پرانے موڈ آف ٹرانسپورٹ سے نجات دلائے۔ بی آر ٹی سسٹم کی عوام میں مقبولیت ایک چیلنج تھا، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ پشاور کے عوام اور پشتونوں نے بی آر ٹی کو دل سے قبول کیا۔ روزانہ اوسطاً ایک لاکھ تیس ہزار لوگ بی آر ٹی سسٹم سے سفر کرتے ہیں۔ یہ عوام کا اس جدید موڈ آف ٹرانسپورٹ پر غیرمتزلزل اعتماد ہے۔ پشتون قدامت پرست ہیں، لیکن لاہور، ملتان اور پنڈی میٹروز سے زیادہ پزیرائی پشاور بی آر ٹی کو ملی ہے۔
بی آر ٹی پشاور تھرڈ جنریشن سسٹم ہے، جب کہ ملکی باقی میٹروز ٹو جی سسٹم کے حامل ہیں۔ بی آر ٹی پشاور کے کوریڈور کی لمبائی 28 کلومیٹر ہے، جس میں 30 سٹیشن ہیں۔ چمکنی سے سٹیشن نمبر ون سے بی آر ٹی کا کوریڈور شروع ہوتا ہے اور کارخانو مارکیٹ سٹیشن نمبر 31 پر ختم ہوجاتا ہے۔ کوریڈور میں ریچ ٹو خیبر بازار سے امن چوک تک ایلیویٹڈ سیکشن ہے۔ 8 انڈرپاسز ہیں۔ انڈر پاسز میں بارش کا پانی نکالنے کے لیے پمپ سٹیشن قائم ہیں جو خودمختار طریقے سے بارش کے پانی کو کوریڈور سے نکالتے ہیں۔ سٹیشن کے باہر پبلک ٹوائلٹ بنائے گئے ہیں۔
قارئین، بی آر ٹی سسٹم کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں 220 بسیں چلیں گی، جو حکومت کی ملکیت ہیں۔ باقی میٹروز میں یہ کم تعداد میں ہیں اور وہ بھی ٹھیکیدار کی ملکیت ہیں۔ بی آر ٹی کی بسیں ہائبرڈ ہیں، جس سے ایندھن بھی کم خرچ ہوتا ہے اور ماحول بھی آلودہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اس سسٹم کا "Intelligent TransPort System” باقی سسٹموں سے جدید ہے۔
بی آر ٹی پشاور صرف مین کوریڈور تک محدود نہیں، بلکہ اس کے فیڈر روٹس پورے پشاور کو کور کر رہے ہیں۔ فیڈر روٹس کے ذریعے کوہاٹ اڈا، پشتخرہ، ایئر پورٹ روڈ، چارسدہ روڈ، حیات آباد کی پوری آبادی اس سسٹم سے مستفید ہوگی۔
بی آر ٹی پشاور میں کئی انڈرپاسز موجود ہیں جن میں مارکیٹیں آباد ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح مال آف حیات آباد، مال آف چمکنی اور مال آف ڈبگری کی صورت میں بہت سارا ریونیو جنریٹ ہو سکتا ہے۔ سٹیشن کے اندر برینڈز کی اشتہاربازی اور بسوں کے اندر بھی برینڈز کے اشتہار کا نظام موجود ہے، جس سے بی آر ٹی سسٹم کا حکومتی خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔
زو سائیکل سروس بی آر ٹی کی سب سے منفرد سروس ہے،جو سٹوڈنٹس اور عام لوگوں کو سائیکل کلچر کی طرح راغب کرے گا جو ترقی یافتہ ممالک میں کم فاصلے کا سب سے مقبول موڈ آف ٹرانسپورٹ ہے۔
قارئین، بی آر ٹی احساسِ تحفظ کا نام ہے۔ اس کے پورے کوریڈور، بسیں اور پورے روٹ کی نان سٹاپ نگرانی سیکڑوں کیمروں کی مدد سے مسلسل ہو رہی ہوتی ہے۔ کنٹرول سنٹر میں سرویلینس ٹیمیں کیمرے کی آنکھ سے کوریڈور اور سٹیشن کے اندر پورے نظام کو مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں۔ وہاں سے ضروری ہدایات متعلقہ حکام کو ملتی ہیں۔ بسوں اور لفٹوں کے اندر کیمرے بھی ویڈیو ریکارڈ کر رہے ہوتے ہیں۔گویا پورا نظام کیمرے کی آنکھ سے مانیٹر کیا جا رہا ہوتا ہے۔اس لیے بی آر ٹی تحفظ کا ایک حسین احساس ہے۔ بالخصوص خواتین کا بی آر ٹی سسٹم پرجو اعتماد بنا ہے، وہ یقینا ’’نیک شگون‘‘ ہے۔
بی آر ٹی پشاور سروس اس وقت پشاور کے لوگوں کے لیے ایک بہترین سہولت ہے۔ زو پشاور کارڈ کا تجربہ،فیئر گیٹس کا نظام اور بسوں میں ویلیڈیٹر سسٹم، سٹیشن میں قطاروں میں کھڑے ہو کر بسوں میں جانا، خواتین کے لیے بسوں میں الگ کمپارٹمنٹ، لفٹ اور برقی زینے کا استعمال ٹی وی ایم مشین سے بلد ہونا، یہ سب سوشل گروتھ اور جدید معاشرے کی تشکیل کی طرف کوششیں ہیں، جس کا خواب بی آر ٹی کی صورت میں پورا ہو سکتا ہے۔بی آر ٹی سسٹم کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا ہے، جس میں بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ یوں بی آر ٹی پشاور اور صوبے کی معاشی و معاشرتی اڑان کا منصوبہ ہے۔ اس کی قدر کرنا،اس نظام کے ایس او پیز فالو کرنا، اس کے سسٹم کی اِفادیت سے فائدہ اٹھانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔