’’شاہراہ دستور کو ابھی یہ منظر دیکھنا بھی باقی تھا۔‘‘
اپنی بے بسی، تذلیل اور بے یقینی کا ایسا تماشا کرتے لوگ بھی چشم فلک نے شاید پہلی بار ہی دیکھے ہوں گے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی پارکنگ میں درجن کے لگ بھگ لوگ باقاعدہ تقریب کا ماحول بنائے بیٹھے تھے۔ کیک لایا گیا۔ موم بتیاں جلائی گئیں۔ تالیاں پیٹی گئیں اور پھر کیک کٹ گیا ۔ شور شرابے نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی متوجہ کرلیا، کیمروں کے فلیش جلنے بجھنے لگے…… مگر یہ کس چیز کی تقریب تھی، کسی کی سالگرہ یا کچھ اور؟
صحافیوں کا سسپنس بہاولپور کے اس عمر رسیدہ شخص نے توڑا، جس کے الفاظ روح تک کو زخمی کر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے کھولتا ہوا سیسہ کانوں میں اُنڈیل دیا ہو: ’’ ہمارے کیس کو نناوے سال ہوگئے، کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ آج ہم کیس کے ننانوے سال پورے ہونے پر یہ کیک کاٹ رہے ہیں۔ ‘‘
میں اس شخص کے جھریوں بھرے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ طنزیہ بے بسی اورنظام کا ماتم کرتی ہوئی تکلیف دہ مسکراہٹ، نظام کے شکنجوں میں جکڑے اس شخص میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی کے گلے پڑسکتا۔ وہ سختی کے چار الفاظ بھی اپنے لبوں سے ادا نہیں کرسکتا تھا کہ کہیں یہ تو ہینِ عدالت کے زمرے میں نہ آجائے۔ وہ تو نسل در نسل ذلالت سہنے، ٹھوکریں کھانے، جھڑکیاں سننے کے بعد بھی انصاف کی راہداریوں سے ٹکرایا نہیں تھا۔ امید کو دامن سے باندھ کراُس کا پر دادا، دادا اور باپ ان راہداریوں میں ہی کہیں کھو گئے تھے۔ وہ تو مقدمہ کے ننانوے سال مکمل ہونے پر بھی سرجھکا کر کیک ہی کاٹ سکتا تھا۔ اس سے بہتر احتجاج کی اس میں ہمت تھی نہ اس کے نتائج بھگتنے کی سکت۔
بہاولپور میں پانچ ہزار چھے سو کنال اراضی کی تقسیم کا یہ مقدمہ قیام پاکستان سے قبل ہی عدالتوں میں ہے۔ 1918ء سے زیر سماعت اس مقدمے میں اب ستر سے بھی زائد فریق ہوچکے ہیں اور حصہ داران کی ایک لمبی لسٹ ہے جس میں ظاہر ہے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن انصاف نہیں ہورہا ، فیصلہ نہیں ہورہا ۔
یہ کسی ایک مقدمہ کی کہانی ہوتی، تو ہم اس کو چوں کہ، چناں چہ، یوں، یاں کے بہت سارے سابقے و لاحقے لگا کر تاویلوں کے بوجھ تلے دبا لیتے، لیکن اس عدالتی نظام کی سست روی کی چکی میں پسنے والے درجنوں اور سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں۔ متعدد مقدمات کی فائلوں پر تو گرد نے تہہ در تہہ ڈیرہ جمالیا ہے۔ برس ہا برس سے انصاف کے متلاشی ٹکریں مارتے پھرتے ہیں جبکہ فائلوں میں مکڑیاں جالے بنتی رہتی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ سے داد رسی کی امید لگائے قید و بند میں کئی لوگ زندگی کی سانسیں ہار جاتے ہیں، مگر مقدمات کی تاریخیں چلتی رہتی ہیں۔
مارچ2007ء میں اس ملک کے اندر دو تحریکوں نے جنم لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار کی معذولی سے عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا۔ وکلا تحریک میں سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی شمولیت سے جمہوریت بحالی تحریک بھی زور پکڑ گئی، چوں کہ دونوں تحریکوں کا ہدف آمر پرویز مشرف تھا۔ اس لئے مقاصد جدا ہونے کے باوجود یہ تحریکیں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔ چوہدری اعتزاز احسن، علی احمد کرد، شیخ احسن الدین، ریاست علی آزاد اور دیگر وکلا راہنماؤں نے اپنے جوشِ خطابت سے عام آدمی کو یقین دلایا کہ عدلیہ کی بحالی ان کی منزل اور ان کی حسرتوں کی تعبیر ہے۔ یہ پُرخطر، کٹھن اور خونی تحریک تھی، مگر جو خواب دکھائے گئے تھے، وہ اس قدر پُرکشش تھے کہ عوام نے آمریت کا کوئی ہتھکنڈا چلنے نہ دیا۔ پھر جمہویت بھی بحال ہوئی اور تھوڑی بد مزگی کے بعد عدلیہ بحالی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔
مگر پھر کیا ہوا……؟ اختیارات کی رسہ کشی، مفادات کے گھناؤنے داؤ، اناؤں کی وحشی جنگ…… جس میں ہار صرف عام آدمی کے حصے میں آئی جس کے سپنے کرچی کرچی ہوگئے۔ وہ ایک بار پھر لٹ گیا۔ بے وقوف بن گیا۔ ہاتھ ملتا رہ گیا۔ ماں جیسی عدلیہ کا وعدہ کرنے والے، ماں جیسی تو دور سوتیلی ماں جیسی عدلیہ بھی ان بدنصیبوں کو نہ دے پائے۔ بلند و بالا دعوے کرنے والے قانون دانوں نے بھی دامن جھاڑا، تیوریاں چڑھائیں اور کسی نئی کہانی کی تلاش میں نکل گئے۔ کیوں کہ یہ مال تو اب بکنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ رہ گئے بے چارے عوام، تو انہیں پرانی خواری پر ہی گزارہ کرنا تھا۔ سو چند روز منھ چڑھانے کے بعد واپس اپنی اوقات پر آگئے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کوئی ادارہ اپنا کام احسن طریقے سے سر انجام دینے کیلئے تیار نہیں۔ ہر ادارے کو اپنے دائرہ سے نکل کر فاؤل کھیلنے میں ہی مزہ آتاہے۔
کاش 2007ء کی اس تحریک کے بعد سیاست دان اپنے حصے کا کام کرتے اور نظام میں موجود خامیوں کو درست کرکے عام آدمی کو سکھ کا سانس لینے کا موقعہ دیتے جبکہ عدلیہ اپنی پیچیدگیوں کو آسانیوں میں بدلتی کورٹ کچہریوں میں بہت نچلی سطح سے کرپشن کا جو نیٹ ورک بہت اوپر تک پھیلا ہوا ہے، کا سد باب کیا جاتا، تو شاید آج پاکستان کا منظر کچھ اور ہوتا۔
مگر افسوس کہ اس دیس میں ہر تحریک کو کچھ ابن الوقت ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ اپنا الو سیدھا کرنے والے، تحریکوں کے بلند مقاصد کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں اور ہر ایسی دھوکا بازی کے بعد پھر برسوں ایک سکتہ طاری رہتا ہے جو کسی حقیقی تحریک کو جنم نہیں لینے دیتا۔