بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے شہر یا گاؤں کی پہچان ہوتی ہیں۔ اُن کی ذاتی خوبیوں اور کامیابیوں سے نہ صرف اُن کی شہرت پھیلتی ہے بلکہ اُن کے شہر، محلے اور کوچے تک کو ناموری حاصل ہوتی ہے۔ مینگورہ شہر کو جن قد آور شخصیات کی وجہ سے امتیازی مقام حاصل ہوا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں جن کی خدمات سے یہ شہر فیضیاب ہوا اُن کی مشترک قدر یہ ہے کہ وہ دو دو ناموں پر مشتمل ہیں مثلاً اقتدار اور اختیار کے ضمن میں شیر محمد خان وزیر مال اور پیر محمد خان کمانڈر۔ تجارت کے شعبہ میں حاجی اسماعیل حاجی اسحاق (مرحوم)، حاجی قند ، خونہ گل مرحوم، طب کے میدان میں ڈاکٹر عارف اور ڈاکٹر روشن ہلال، ڈاکٹر حبیب النبی (مرحوم) قابل ذکر ہیں۔ لیکن جو دو نام دولت، سیاست اور سماجی بہبود کے لحاظ سے بہت زیادہ مقبول و معروف ہوئے، وہ تھے کامران، کریم بخش، جو کہ رشتہ میں چچا بھتیجے تھے۔ کریم بخش (مرحوم) تو چھوٹے بڑے سب کے لیے ’’چاچا کریم بخش‘‘ تھے، جنھوں نے نہ صرف سیاست کے میدان میں بلکہ رفاہِ عام کے سلسلہ میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ان کے علاوہ انھوں نے پشتو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور شعرا و ادبا کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

کریم بخش (مرحوم) تو چھوٹے بڑے سب کے لیے ’’چاچا کریم بخش‘‘ تھے، جنھوں نے نہ صرف سیاست کے میدان میں بلکہ رفاہِ عام کے سلسلہ میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔

لیکن آج میں آپ کو ساٹھ سال پہلے کے سوات میں لے جانا چاہتا ہوں۔ اس زمانہ میں میری عمر یہی کوئی سات یا آٹھ سال ہوتی ہوگی۔ ہم سیدوشریف کے محلہ افسر آباد میں رہتے تھے۔ ہمارا گھر سڑک کے قریب ایک بلند جگہ پر بنا ہوا تھا اور اس کی مشرقی دیوار سے لے کر پہاڑی کے دامن تک آٹھ بڑے بڑے حویلی نما مکانات بنے ہوئے تھے، جن میں ریاست کے اعلیٰ افسران رہائش پذیر تھے۔ ان مکانات کے عقب میں جنوب کی طرف کئی چھوٹے چھوٹے کچے مکانات تھے، جن میں ان افسران کے نوکر، سائیس اور خدمت گار رہتے تھے۔
عصر سے ذرا پہلے والئی سوات اپنی کار میں نکلتے۔ ان کے ساتھ تین چار اعلیٰ افسر بھی ہوتے تھے اور ان کی کار کے پیچھے کھلی جیپ میں گارڈز ہوتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ہمارے گھر کے نیچے سڑک پر گاڑی رکواتے اور افسر آباد میں رہائش پذیر کسی افسر کو بلاتے یا تو اُن کو اپنے ساتھ بٹھاتے یا کچھ ہدایات وغیرہ دے کر روانہ ہوجاتے۔ اس دوران میں گاڑی میں بیٹھے ہوئے دوسرے اشخاص بھی احتراماً گاڑی سے اُتر جاتے۔ ان میں سے ایک ایسے بھی ہوتے تھے جن کی سوٹ والئی صاحب سے مکمل ملتی تھی۔ رنگ، سلائی اور ’’کمبی نیشن‘‘ میں حیران کن یک سانیت ہوتی تھی۔ ایک دن میں اپنے والد صاحب (محمد عظیم مرزا) کے ساتھ کھڑے ہوکر ان بڑے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے آہستہ سے سرگوشی کے انداز میں اُن سے پوچھا کہ ’’بابا! یہ دوسرا شخص کون ہے جس نے بادشاہ جیسا لباس پہن رکھا ہے؟‘‘انھوں نے جواب دیا: ’’بیٹا یہ کامران خان ہیں۔ مینگورہ کے رہنے والے ہیں اور والی صاحب کے قریبی ساتھی ہیں۔ یہ باقی حضرات ریاستی ملازم ہیں لیکن کامران خان ان کے دوست ہیں۔‘‘

عصر سے ذرا پہلے والئی سوات اپنی کار میں نکلتے۔ ان کے ساتھ تین چار اعلیٰ افسر بھی ہوتے تھے اور ان کی کار کے پیچھے کھلی جیپ میں گارڈز ہوتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ہمارے گھر کے نیچے سڑک پر گاڑی رکواتے اور افسر آباد میں رہائش پذیر کسی افسر کو بلاتے یا تو اُن کو اپنے ساتھ بٹھاتے یا کچھ ہدایات وغیرہ دے کر روانہ ہوجاتے۔ (فوٹو: ایکسپریس ٹریبون)

یہ تھا کامران خان سے میرا پہلا تعارف۔ میں زندگی بھر اُن سے ملا ہوں اور نہ اُن سے کبھی بات ہی کرنے کا موقع ملا ہے، مگر بچپن کے سادہ سے ذہن پران کا نام ثبت ہوکر رہ گیا اور میں کامران بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ اُن کو کبھی دور سے اور کبھی نزدیک سے دیکھنے کے مواقع ملے۔ اُن کے جیسا دیدہ زیب اور صفائی پسند شخص میں نے سواتی معاشرہ میں کوئی اور نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اچھی کوالٹی کا لباس زیب تن کرتے۔ مغربی لباس کے سلسلہ میں برطانوی روایات کی سختی سے پابندی کرتے اور کبھی بھی امریکیوں کی طرح عامیانہ ’’کمبی نشین‘‘ اختیار نہیں کی جس کو عُرفِ عام میں ’’ولگر امریکن کانٹراسٹ‘‘ کہتے ہیں۔ والئی سوات کے ساتھ اُن کی دوستی قابل رشک تھی، مگر اس دوستی کو بدخواہوں کی نظر لگ گئی اور دونوں کے درمیان معمولی سی غلط فہمی بڑھتے بڑھتے ایک وسیع خلیج بن گئی۔ یار لوگ بھی اس چنگاری کو ہوا دے کر بھڑکاتے رہے۔ لیکن چوں کہ یہ دونوں اعلیٰ ظرف کے مالک تھے، اس لیے اوچھے ہتھکنڈوں سے گریز کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب والی صاحب کی مخالفانہ صدائیں بڑھنے لگیں، تو کامران خان نے اس وقت بھی ایک درمیانہ راستہ اختیار کیا اور ذاتی محنت و کاوش سے سوات کے لیے ایک "Draft Constitution” تیار کروایا جس میں اختیارات والئی سوات سے ایک منتخب اسٹیٹ کونسل کو منتقل کردیے جاتے اور وہ برطانوی بادشاہت کی طرز پر ریاست کے علامتی سربراہ رِہ کر قوم کی رہ نمائی کرتے۔ دراصل کامران خان چاہتے تھے کہ سوات کے عوام کے بنیادی حقوق بھی محفوظ ہوں اور والئی سوات کی مدبرانہ قیادت بھی میسر ہو۔ وہ کبھی بھی اس بات کے لیے آمادہ نہ تھے کہ سوات کی انفرادی حیثیت ختم ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سواتی عوام کو ریاست کے انتظامی امور میں شراکت دینے کے قائل تھے۔ افسوس کہ یہ منصوبہ پذیرائی حاصل نہ کرسکا اور اُن کی مخلصانہ کوشش ناکام ہوگئیں۔
ان سارے اختلافات کے باوجود وہ والئی سوات کے دُکھ درد میں شریک ہوئے، جب مرحوم شہزادہ احمد زیب کو شدید زخمی حالت میں سیدو ہسپتال لایا گیا اور ہسپتال میں عوام کا ایک ہجوم تھا جو آگے بڑھ بڑھ کر شہزادے کو خون دے رہا تھا اور والئی سوات غم کی تصویر بنے اپنے پیارے بیٹے کو تکلیف سے چلاتے دیکھتے رہے۔ کامران خان اُن کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ وہ مروت، دوستی اور وفا کا پیکر اب ہم میں موجود نہیں۔ وہ غریبوں کے ہمدرد تھے۔ انھوں نے لا تعداد لوگوں کی اس طرح مدد کی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہماری دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام ملے۔
زمین کے اندر بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے