عید الفطر کے بعد سے ہی سوشل مےڈیا پر بعض حضرات کی طرف سے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روح کے بر خلاف کہا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں کی جانے والی قربانی کے بجائے کورونا وبائی مرض سے متاثر غربا کو نقد رقم دے دی جائے۔
اس طرح کی باتیں عموماً اُن حضرات کی طرف سے سامنے آتی ہیں جو قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے مقابلہ میں دنیاوی وقتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس موقع پر چند باتیں عرض ہیں:
٭ کسی عالمی ادارہ یا کسی حکومت کی طرف سے قربانی پر پابندی کا نہ کوئی فرمان جاری ہوا ہے، اور نہ کورونا وبائی مرض کا دور دور تک قربانی کے جانور سے کوئی تعلق ہی ہے۔ نیز جب دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باوجود احتیاطی تدابیر کے ساتھ دیگر کام ہورہے ہیں، حتی کہ چین کے ووہان شہر کی گوشت مارکیٹ (جہاں سے کورونا وبائی مرض پھیلا تھا) اور دنیا کے ہزاروں سلاٹر ہاؤس میں روزانہ لاکھوں جانور ذبح ہو رہے ہیں، تو اسلامی شعار (قربانی) کو کیوں انجام نہیں دیا جاسکتا؟ بلکہ اگر کبھی کسی حکومت کی طرف سے عید الاضحی کی قربانی پر پابندی کی بات شروع ہو، تو ہمیں اتحاد واتفاق کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس کی مخالفت کرنی چاہیے، تاکہ سنتِ ابراہیمی پر عمل کیا جاسکے۔ ہاں، اگر کوئی شخص کسی وجہ سے پوری کوشش اور فکر کے باوجود تین دن تک قربانی نہ کرسکا اور نہ کسی دوسرے مقام پر کرواسکا، تو پھر وہ قربانی کے ایام گذرنے کے بعد قربانی کی قیمت غریبوں کو ادا کردے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم عمومی طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حالات تنگ ہونے کے باوجود کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عید گاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحبِ استطاعت ہیں، تو ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی کرنی چاہیے۔
٭ قرآن و حدیث کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ قربانی کے دنوں میں بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیا جائے۔ کیوں کہ تمام مکاتبِ فکر کے فقہا و علمائے کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں، اور قربانی کے ایام میں کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے، جیسا کہ پوری کائنات میں سب سے افضل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ نیز حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بذاتِ خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امتِ مسلمہ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ باوجود یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں کبھی کبھی پکانے کی اشیا موجود نہ ہونے کی وجہ سے دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر بھی باندھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری زندگی میں ایک بار بھی صاحبِ استطاعت نہیں بنے، یعنی پوری زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک مرتبہ بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال قربانی کیا کرتے تھے۔ نیز، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہی قربانی کے ایام میں ایک دو نہیں، دس بیس نہیں سو اونٹوں کی قربانی کی۔ غرض یہ کہ قربانی کے دنوں میں خون بہانا یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ایک اہم عبادت ہے۔
٭ جانوروں کی قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہونا صرف مذہبِ اسلام میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی ہے، اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل دیگر انبیائے کرام کی تعلیمات میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم واقعہ مشہور ہے۔ جب قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے، تو عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی میں حصہ نہ لینے کی دوسروں کو ترغیب دینا کیسے درست ہوسکتا ہے؟
٭ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں عمومی طور پر صحابۂ کرام کے معاشی حالات بہتر نہیں تھے۔ کتابوں میں درج سیکڑوں واقعات اس کے شاہد ہیں۔ نیز صحابۂ کرام کو اپنے مال کا اچھا خاصہ حصہ جہاد وغیرہ میں بھی لگانا ہوتا تھا۔ اس کے باوجود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابۂ کرام کو قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تعلیم دیتے تھے۔ حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی امت پر شفقت کا معاملہ کیا کرتے تھے۔
قارئین، اب آخری بات عرض ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، بلکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اسی لیے ہمیں یقینا غریبوں کی مدد کرنے میں سبقت کرنی چاہیے، جیساکہ مسلم بھائیوں نے گذشتہ رمضان کے مبارک مہینا میں محتاجوں اور مزدوروں کی مدد کرکے مثال قائم کی۔ شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق جہاں مالدار لوگ اپنے مال کی مکمل زکوٰۃ ادا کریں، وہیں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کمزور لوگوں کی مدد کرے، مگر قرآن وحدیث سے ثابت شدہ واضح حکم میں اپنی خواہش کی اتباع کے بجائے شریعت اسلامیہ کے حکم کو بجالانا ہی ضروری ہے۔ یقینا غریبوں کی مدد کی جائے لیکن واجب قربانی چھوڑ کر قربانی پر خرچ ہونے والی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا کسی شخص کی خواہش تو ہوسکتی ہے، مگر یہ بات قرآن و حدیث کی روح کے خلاف ہے۔ قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنے یا پکاکر کھلانے میں حکمِ الٰہی پر عمل کے ساتھ غریبوں کی مدد نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر کوئی شخص واجب قربانی ادا کرنے کے بعد موجودہ حالات میں نفلی قربانی زیادہ نہ کرکے غریبوں کی مدد کرے، تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن واجب قربانی چھوڑ کر غریبوں کی مدد کرنا ہرگز دین نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں موجودہ دور کے مقابلہ میں زیادہ تعداد میں لوگ غریب تھے، اور وہ آج کے غریبوں سے زیادہ محتاج اور ضرورت مند تھے، مگر ایک مرتبہ بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ انہوں نے عید الاضحی کے دنوں میں قربانی کے بجائے غریبوں کی مدد کی بات کہی ہو۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اللہ کے حکم اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں قربانی کے دنوں میں قربانی کریں اور تین دن کے علاوہ پورے سال شادی وغیرہ کے اخراجات اور اپنے داتی مصاریف میں کمی کرکے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کی خوب مدد کریں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔