اخوند عبد الغفور کی ولادت سن 1794ء کو سوات کے گاؤں جبڑئی میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام عبدالواحد تھا، اور وہ مہمند قبیلے کی ذیلی شاخ صافی سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم ان کے خاندانی پس منظر کے بارے میں ایک دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے۔ اخوند عبدالغفو ر تاریخ میں دیگر ناموں سے بھی یاد کیے جاتے ہیں جن میں سیدو بابا، اخوند صاحب اور اخوند آف سوات جیسے نام شامل ہیں۔ انہوں نے مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کیا جن میں گو جر گڑھی (مردان)، نوشہرہ او ر چمکنی (پشاور)شامل ہیں۔ وہ تصوف کے طرف بھی مائل تھے، اور مختلف علما اور مشایخ کی شاگرد ی اختیار کی۔
وہ بیکا، نمل (نوشہرہ)، سلیم خان (صوابی) اور قاسمی (مردان) میں بھی مقیم رہے۔ وہ سن 1835ء میں سوات واپس آئے اور بالترتیب ملوچ، رانگیلہ، اوڈیگرام، مرغزار اور سپل بانڈئی میں قیام پذیر رہے۔ بالآخر انہوں نے سیدو میں مستقل سکونت اختیار کی، اور وہ پھر وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ (مزید تفصیل کے لیے ا صغر خان کا ا ایم فل تھسیز بعنوا ن ـ’’صوفی ازم اینڈ پالیٹکس ان سواتـ: رول آف سیدوبابا اینڈ سنڈاکئی بابا‘‘ ملاحظہ کریں)
سیدو بابا دنیاوی اقتدار اور بادشاہت حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی اصلاح اور دین کے تبلیغ میں مصروفِ عمل رہے۔ ان کی شہرت اور اثرورسوخ کا دائرہ صرف سوات تک محدود نہیں تھا، بلکہ انگریزوں کے زیرِ انتظام علاقوں تک بھی پھیلا ہوا تھا۔ انگریز مصنفین اور مؤرخین نے انھیں اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے۔ ان کی تحریری رپورٹس اور حکومتی خط و کتابت کی فائلیں سیدو بابا کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ریو جے کے براؤنی (Rew. J .Cave Browne) نے لکھا ہے کہ ’’وادیِ سوات میں جنگجو اور جنونی نسلیں آباد ہیں، جن پر حکمرانی ’مولویوں کے مولوی‘ کرتا ہے۔ ایشیا کے اس حصے کے سربراہ یا پادری کو اخوند آف سوات کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
اگست 1858ء میں میجر راورٹی نے قندھار (افغانستان) کے ایک مقامی شخص کو سوات بھیجا تھا۔ کیوں کہ اس وقت کسی انگریز کے لیے سوات آنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میجر راورٹی نے جب اپنی رپورٹ بعد میں مرتب کی، تو اس میں اُس نے قندھار کے اس رہائشی کا نام ظاہر نہیں کیا، اور نہ وہ اس خان کا نام سامنے ہی لایا، جو قندھاری کو اپنے ساتھ سوات لایا تھا۔ قندہارسے تعلق رکھنے والایہ شخص پشتوبول سکتا تھا، اور اس زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سوات سے واپسی کے بعد میجر راورٹی کو وہ تمام تفصیل فراہم کی جو اسے بعد میں تحریری شکل میں سامنے لایا۔ مذکورہ شخص نے سوات میں اپنے مختصر قیام میں سیدو بابا سے بھی ملاقات کی، اور ان کے روزمرہ کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا۔ میجر راورٹی لکھتے ہیں:’’اخوند (سیدو بابا) کھانے کے لیے جو روٹی استعمال کرتے ہیں، وہ ’’شموخا‘‘ سے تیار کی جاتی ہے، جس کا ذائقہ بہت تلخ او ر ناخوشگوار ہوتا ہے۔ وہ صبح سویرے کھاتے ہیں اور دن کے وقت روزہ رکھتے ہیں۔ شام کو وہ نمک کے ساتھ ابلی ہوئی سبزیاں کھاتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ مشروب جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ انگریزی طرز کی بنی ہوئی چائے ہے، جس میں دودھ شامل کیا جاتا ہے۔ روزانہ تقریباً دو سے تین سو غریب افراد ان کے مہمان خانے(لنگر) سے کھانا کرتے ہیں۔ دور دراز سے آنے والے وہ لوگ جن کے ساتھ جانور ہوتے ہیں، یہاں پر اُن کے جانورں کو بھی مکئی اور کچھ گھاس کھا نے کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔ اخوندصاحب نے اپنی رہائش گاہ کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی لگایاہوا ہے، جس میں انار، آڑو، انجیر، ٹانگو ا ور اخروٹ کے چند پھل دار درخت ہیں۔ جب یہ پھل پک جاتے ہیں، تو وہ جمع کیے جاتے ہیں اور تھوڑی مقدار میں روزانہ کی بنیاد پر آنے والے مہمانوں کو کھانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ جو مہمان پھل چکھنے کی خواہش کا اظہار کر تے ہیں، تو اخوند ان کو وہ اپنے ہاتھوں سے کھانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔‘‘
میجر راورٹی سیدو بابا کی رہائش گاہ کے بارے میں مزیدلکھتے ہیں: ’’ان کی رہائش گاہ ایک انتہائی پُرفضا اور صحت بخش جگہ پر واقع ہے، اور قریب ہی ٹھنڈی اور صاف پانی کی ندی بہتی ہے۔ اس ندی پر ایک چھوٹا سا تالاب بنایا گیا ہے، جس میں کچھ مچھلیاں بھی ہیں۔ یہاں پر متعدد بڑے بڑے اور سایہ دار درخت ہیں۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔‘‘
1877ء میں ان کی وفات کے بعد، اس کا مزار ان کے پیروکاروں اور مریدوں کے لیے روحانی سکون اور ریاضت کی جگہ اختیار کرتا ہے۔ روایتی لکڑی کا فریم ان کی مزار پر لگایا جاتا ہے، اوریہیں لکڑی کا فریم 1950ء کی دہائی کے وسط تک ان کے مزار پر لگا رہا۔
سیدو بابا کے انتقال کے بعد سوات اندرونی تنازعات اور لاقانونیت میں جکڑا رہا۔ سوات کی یہ ناگفتہ بہ اور غیریقینی معاملات 1917ء تک جاری رہے۔ سید عبدالجبار شاہ کی ڈیڑھ سالہ مختصر حکومت کے بعد ستمبر 1917ء میں اخوند صاحب کے پوتے میاں گل عبد الودود نے ایک جرگے کے فیصلے کے نتیجے میں سوات کا اقتدار سنبھال لیتے ہیں۔ اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے بعد میانگل عبد الودود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے دادا سے منسوب مسجد کی تعمیرِ نو کی جا ئے، اور اسے جدید طرز پر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔
راقم کو اپنے ایم فل ریسرچ کے دوران میں ٹرائبل افیئرز ریسرچ سیل، پشاور میں کچھ خطوط پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ گو کہ ان خطوط کی تعداد صرف پانچ تھی، لیکن تب بھی یہ بہت اہم او ر تاریخی معلومات سے مزین تھے۔ ( فائل نمبر 20/ سوات، ٹرائبل ریسرچ سیل، پشاور میں یہ مراسلے پڑھے جا سکتے ہیں) ان خطوط سے یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ سیدو بابا مسجد کی تعمیر کا کام 1930ء کی دہائی کے اوائل میں شروع کیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہندوستانی ماہرینِ تعمیرات کی خدمات ’’سیدو بابا مسجد‘‘ اور ’’وائٹ پیلس‘‘ کی تعمیر کے آغاز میں مستعار نہیں لی گئی تھیں، بلکہ مقامی کاریگروں نے مسجداور سفید محل کے ابتدائی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ مقامی کاریگر ان شان دار اور متاثر کن تعمیرات کے ابتدائی کام کو احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ جب ریاستِ سوات کی بنیاد رکھی گئی، تو قریبی علاقوں سے مختلف فنون سے منسلک افراد بھی سوات آئے اور یہاں پر مستقل سکونت اختیار کی۔ ان باہر سے آنے والوں میں ماہرِ تعمیرات بھی شامل تھے۔ مزید یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ باچا صاحب نے ہندوستان میں سنگِ مرمر کا کاروبار کرنے والے متعلقہ مالکان سے براہِ راست خط و کتابت نہیں کی تھی، بلکہ اس مقصد کے لیے بھی انہوں نے مروجہ خط و کتابت کا طریقۂ کار اپنایا تھا جو کہ پولی ٹیکل ایجنٹ، ملاکنڈ کے ذریعے اور بعض اوقات ڈپٹی ڈائریکٹر، (فرنٹیئر ڈیپارٹمنٹ؍ ڈویلپمنٹ) پشاور کی وساطت سے ہوتا تھا۔
1935-36ء میں ان تاریخی عمارتوں کے ابتدائی ڈھانچوں کی تکمیل کے بعد برطانوی ہندوستان کے شہر جے پور سے سنگِ مرمر در آمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی تناظر میں پہلا خط باچا صاحب نے 14 ستمبر 1935ء کو ڈپٹی ڈائریکٹر، این ڈبلیو ایف پی (بمقام پشاور) کو ارسال کیا گیا (یاد رہے کہ اس وقت باچا صاحب کے لیے انگریزی خط وکتابت کے فرائض عطا اللہ المعروف وکیل صاحب سرا نجام دیتے تھے۔) اس خط کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر نے 14 ستمبر 1935ء کو جوابی خط ارسال کیا تھا۔ اس خط میں باچا صاحب کو ان الفاظ میں مطلع کیا گیا تھا: ’’مجھے آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کی طرف سے سنگِ مرمر کے ٹائلوں کے جو نمونے بھیجے گئے تھے، اس کی منظوری دے دی گئی ہے۔ سفید بے داغ ( موٹے ماربل ٹائلز) کی قیمت 14 آنے فی مربع فٹ ہوگی۔ سفید ماربل (سیاہ دھاریوں کے ساتھ) کی قیمت 11 آنے فی مربع فٹ ہوگی، جب کہ گلابی (پیر سباک والے) ٹائلز کی قیمت ایک روپے آٹھ آنے فی مربع فٹ ہوگی۔ مذکورہ بالا قیمتیں بغیر پالش شدہ ٹائلوں کی ہیں۔‘‘
ڈپٹی ڈائریکٹر نے مزید لکھا:’’مَیں سمجھتا ہوں کہ فرش کے لیے سفید سنگِ مرمر کی ضرورت ہوگی۔ کیوں کہ بے داغ سفیدسنگ مرمر آنکھوں کو چندھیا دینے کا سبب بنے گا۔ گورنمنٹ ہاؤس کے برآمدے کے لیے بھی سفید سنگ مرمر کا انتخاب کیا گیا ہے، اور ایسے سفید سنگ مرمر منگوانے کا حکم دیا ہے جس میں ہلکے سے سیاہ رنگ کی آمیزش ہو۔ اس قسم کے سنگ مرمر کے استعمال سے سفید رنگ کی یکسانیت کا خاتمہ بھی ہوگا، جو کہ بے رنگ سفید ماربل کے استعمال کی وجہ سے جنم لے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ سفید سنگ مرمر کا مکمل آرڈر ہمیں ہی دیں گے، جو ستونوں وغیرہ کے لیے بلاک کی شکل میں چاہیے ہوگا۔ یہ آپ کو دو روپے آٹھ آنے فی مکسر فٹ پر فراہم کیا جائے گا (مکسر فٹ سے مراد لمبائی، چوڑائی اور موٹائی لی جاتی ہے)
اس خط کے جواب میں باچا صاحب کے سیکریٹری نے 23 ستمبر 1935ء کو کچھ یوں لکھا: ’’آپ براہِ کرم ریل گاڑی کے ذریعے نیچے ذکر ر شدہ مال درگئی تک پہنچا دیں۔ ان میں چبوترے کے لیے سفید سنگ مرمر جس پر سیاہ رنگ کی آمیزش ہو، گلابی سنگ مرمر کی چھے سلیں، چبوترے کے لیے سفید بے داغ سنگ مرمر اور دروازوں وغیرہ کے لیے کچھ اضافی سلیں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی امیدرکھتے ہیں کہ آپ اس سنگ مرمر کو نصب کرنے اور فرش کو چمکانے کے لیے بھی مستری مہیا کریں گے۔ گلابی رنگ کے سلیبزکی اشد ضرورت ہے، اور اس کی جلد فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اس کے بعد سفید رنگ کا سنگ مرمر (جس پر سیاہ رنگ کی آمیزش ہو) اور آخر میں سفید بے داغ سنگ مرمر فراہم کیا جائے ۔‘‘
اس سلسلے میں ایک اور خط ڈپٹی ڈائریکٹر، فرنٹیئر ڈویلپمنٹ، N.W.F.P نے 5 دسمبر 1935ء کو سوات کے حکمران کو ارسا ل کیا تھا۔ خط میں مذکور تھا: ’’مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ ابھی سنگِ مرمر بچھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اس لیے اگر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو، تو ہم جنوری میں آپ کو سنگ مرمر بھیج دیں گے، تاکہ آپ کے دوسرے مطالبات کو بھی ساتھ ہی پورا کیا جاسکے۔ مَیں آپ کے اس اقدام پر شکرگذار رہوں گا۔ کیوں کہ اسی طرح ہم دوسرے گاہکوں کی ضرویات کو پوراکر سکیں گے۔ گورنمنٹ ہاؤس میں کام کرنے والے پندرہ میسن اور کاریگر اس ماہ کی دس تاریخ کو جب کہ مزید چھے اس ماہ کی اکیس تاریخ کو فارغ ہوجائیں گے۔ ان کاریگروں نے گورنمنٹ ہاؤس میں سنگِ مرمر بچھانے کا کام بہت ا حسن طریقے سے سر انجام دیا ہے، اور کام کے دوران میں بہت کم پتھروں کو ضائع کیا ہے۔ اس ضیاع کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ عام کاریگروں کی ماہانہ اجرت چالیس سے پچاس روپے کے درمیان ہے جب کہ مستری کی اجرت ساٹھ روپے ہے۔ اس رقم کے علاوہ ان کو گھر کا کرایہ اور امرتسر (ہندوستان) سے آنے جانے کا سفری معاوضہ بھی دینا ہوگا۔ سوات میں کام کرنے کے لیے وہ مزید بارہ فیصد زیادہ وصول کرسکتے ہیں۔ برائے مہربانی مجھے جلد ہی اس معاملے میں اپنی رائے سے آگاہ کردیجیے۔‘‘ـ
اس خط و کتابت کے بعد سنگِ مرمر کی ٹائلیں ہندوستان کے شہر جے پور سے مختلف وقفوں کے ساتھ سیدو شریف پہنچانے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ امرتسر سے آئے ہوئے مستریوں نے وائٹ پیلس اور سیدو بابا مسجد کے برآمدوں اور دیگر مقامات پر ماربل بچھانے کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان عمارتوں میں استعمال کیا گیا سنگ مرمر وہی ہے، جوکہ تاج محل میں استعمال ہوا ہے۔
جب سنگ مرمر بچھانے کا یہ کام جاری تھا، تواس دوران میں باچا صاحب اور ان کی انتظامیہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ سیدو بابا مسجد کے ہال کے لیے ایسے ٹائلز درآمد کیے جائیں جن پر کندہ کاری کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں سوات کے حکمران کی طرف سے چھے اپریل 1936ء کو ایک مراسلہ، ڈویلپمنٹ آفیسر، پشاور کو ارسال کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس خط کے ساتھ ہی ہاتھ سے بنایا گیا ایک سکیچ بھی منسلک کیا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا:’’مَیں سنگ مرمر کے مجوزہ ٹائلز کا خاکہ بھیج رہا ہوں۔ کیا آپ براہِ کرم مجھے مطلع کریں گے کہ آپ یہ ٹائلز کس قیمت پر فراہم کرسکتے ہیں؟ کل169 سلیبز کی ضرورت ہوگی۔ اب جب کہ سنگ مرمرکو اکھٹا کر لیاگیا ہے، تو آپ کاریگروں کے آنے اور کام شروع کرنے کا انتظام کرلیں، تاکہ ان ماربل ٹائلز کو بچھایا جا سکے۔
راقم نے سیدو بابا مسجد کا دورہ کیا اور مسجد کے ہال میں بچھائے گئے ٹائلز کا موازنہ ہاتھ سے تیار کردہ اس خاکہ سے کیا جسے اپریل 1936ء کو ہندوستان سے بھیجا گیا تھا۔ معائنے کے بعد معلوم ہواکہ اسی ڈیزائین کے ماربلز کو آٹھ قطاروں میں نسب کیا گیا ہے، اور یہ کل 264سلیبز بنتے ہیں ۔
خط و کتابت کے اس سلسلے کا آخری خط دلچسپ نوعیت کا ہے۔ اس خط میں ہندوستان سے آئے ہوئے مستریوں کی اجرت کا ذکر موجود ہے۔ ساتھ ہی باچا صاحب کی اس خواہش پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان مستریوں کو روزانہ اجرت کی بجائے کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے پر راضی کیا جائے۔ باچا صاحب نے 15 مئی 1936ء کو پشاور میں ڈویلپمنٹ آفیسر کو آگاہ کیا:’’مزدور کچھ دن پہلے سوات پہنچ گئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا جائے، اور سا تھ ہی انھیں ہفتے میں ایک چھٹی دی جائے۔ میرے لیے ان مطالبات کو ماننا مشکل ہوگا۔ ہم نے انہیں رہائش فراہم کر دی ہے، اور اب وہ روزانہ کی اجرت پرکام کر رہے ہیں، انہیں صرف انہی دنوں کا معاوضہ دیا جا رہا ہے جن پر وہ کام کرتے ہیں۔ جس رفتار سے وہ کام کررہے ہیں، ا سی رفتار سے فی مربع فٹ پر تقریباً تین روپے لاگت آئے گی(جو کہ بہت زیادہ ہے)۔ اسی لیے مَیں نے آپ سے کہاتھا کہ یہ کام کنٹریکٹ کی بنیاد پر کیا جائے۔ مَیں شکر گذار ہوں گا، اگر آپ کنٹریکٹ کی بنیاد پر مزید مزدورں کا انتظام کریں۔ موجودہ شرائط سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔‘‘
یہ ساری خط و کتابت اس حقیقت کو آشکارا کرتی ہے کہ وائٹ پیلس اور سیدو بابا مسجد میں لگے سنگِ مرمر کے ٹائلز بھارت کے شہر جے پور سے درآمد کیے گئے تھے۔ میانگل جہانزیب (والی صاحب) کے پوتے میانگل اورنگزیب نے بتایا کہ ہندوستانی ماہرین اور کاریگر سیدو بابا مسجد کے منبر اور وائٹ پیلس کے بنچوں پر آرائشی کام کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وائٹ پیلس کی تعمیر 1941ء میں مکمل ہوئی، جب کہ سیدو بابا مسجد کی تعمیر 1943ء میں مکمل ہوئی۔ تاریخی ریکارڈ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وائٹ پیلس کے تعمیراتی کام کو مکمل ہونے میں دس سال کا عرصہ لگا، جب کہ مسجد کی تعمیر تقریباً بارہ سال میں مکمل ہوئی۔ سیدو بابا مسجد کی جدید تعمیر کے بعداس کے پرانے گنبدوں کومحفوظ کیا گیا، اور فی الوقت اسی مسجد میں رکھا گیا ہے۔
بلاشبہ یہ دونوں عمارتیں فنِ تعمیر کا شاہکار ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ یہ عمارتیں اس دور میں تعمیر کی گئیں جب ٹیکنالوجی اورجدید وسائل تک رسائی بہت مشکل تھی۔ گذرتے زمانے کے منفی اثرات اور کسی حد تک کوتاہی کے باوجود دونوں عمارتیں اب بھی اپنی شان برقرار رکھے ہوئی ہیں۔ سال بھر بڑی تعداد میں سیاح اور زائرین ان دونوں تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے سوات آتے ہیں۔
سیدو بابا مسجد اور سفید محل، سوات کے حکمران کے جمالیاتی ذوق کے آئینہ دارہیں۔ زائرین کے لیے یہ مسجداگر ایک طرف روحانی تسکین کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف یہ پرشکوہ تعمیرات ان کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بھی ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ باچا صاحب نے اگر ایک طرف 1943ء میں سیدو بابا مسجد کی جدید طرز پر تعمیر مکمل کی، تو دوسری طرف سیدو بابا کے مزار کو اپنی اصلی شکل میں برقرار رکھنا مناسب سمجھا۔ علاوہ ازیں مسجد کے صحن میں موجو د قبروں کو بھی کچی اور ریتلی حالت میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر جب والی صاحب نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے اس مزار اور مسجد کے صحن میں موجود قبروں کو جدید طرز پر تعمیر کر نے کا فیصلہ کیا۔
سوات کی تاریخ کے حوالے سے معتبر بزرگ کالم نگار فضل رازق شہابؔ نے بتایا کہ اس مزار کی تعمیر مینگورہ سے تعلق رکھنے والے معروف ٹھیکیدار امان اللہ خان کی زیرِ نگرانی گئی تھی۔ مزار پر موجود لکڑی کا فریم ہٹا یا گیا، اور اسے والی صا حب کے حکم پر کانجوگاؤں لے جایا گیا۔ وہا ں پر اس فریم کو آخوند کریم داد کے مزار پر نصب کیا گیا تھا، جو شہید بابا کے نام سے بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
سیدو بابا مسجد کے صحن میں جو افراد مدفون ہیں، ان میں سے ہر ایک کی شناخت با ہر سے آئے ہوئے زائرین اور سیاحوں کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ حتی کہ بعض مقامی لوگ خاص کر نوجوان طبقہ بھی ان کی الگ الگ نشان دہی سے قاصر ہے۔
سیدو بابا کے مزار سے متصل قبلہ کی طرف میاں گل عبدالخالق مدفون ہیں جو کشر (جونیئر) میاں گل کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ میاں گل عبد الخالق میاں گل عبد الودود (باچا صاحب) اور میانگل شیرین کے والد تھے اور 1892ء میں وفات پاگئے تھے۔
سیدو بابا مزار سے متصل دوسری طرف میاں گل عبدالحنان مدفون ہیں جو مشر (سینئر) میاں گل کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ ان کی وفات سن 1887ء میں ہوئی۔
اس کے علاوہ جن تین قبروں پر نام بھی نقش کیے گئے ہیں، ان میں میا ں گل شیرین (باچا صاحب کے چھوٹے بھائی)، سید بادشاہ اور امیر بادشاہ (باچا صاحب کے دو چچا زاد بھائی) کی قبریں شامل ہیں۔
دیگر بے نام تین قبریں سیدو بابا کے مریدوں کی ہیں۔ مسجد کے قریب پانی کا چشمہ اب بھی بہتا ہے، اور اسے مقامی لوگ وضو اور پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افسوس کہ وہ رنگین مچھلیاں جو اس چشمے میں موجو د ہوا کرتی تھیں،اب نہیں رہیں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔