زمانۂ قدیم سے اہلِ علم نے وقت کو تین زمانوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی ماضی، حال اور مستقبل۔ اس کا اس طرح ہونا بھی اس کی کافی دلیل ہے کہ ’’دنیا ختم ہوجائے گی۔‘‘
زمان کے ساتھ مکان کا بھی ذکر آتا ہے، یعنی ٹائم اور سپیس۔ اور مادہ یا طبیعیات زمان ومکان تک محدود ہے۔ اگرچہ آئزک نیوٹن نے کہا ہے کہ مکان مطلق ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جب کہ لائبنز نے کہا ہے کہ یہ مطلق نہیں بلکہ جہاں تک مادہ ہے، وہاں تک سپیس اور مکان بھی ہے۔ مکان کی پیدائش مادے کے ساتھ ہی ہوئی ہے۔یہ سائنس دانوں اور فلاسفہ کی بحث ہے، اور ایک علیحدہ موضوع ہے۔ہمارا موضوع ماضی، حال اور مستقبل ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمیشہ حال سے شاکی رہتے ہیں اور مستقبل میں کیا ہوگا، اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ یوں ہم توہمات کا شکار ہوتے ہیں، تو کبھی نجومی کے پاس، کبھی ہتھیلی دیکھنے والے کے پاس، کبھی کسی چڑیا یا توتے کے پاس فال نکالنے جاتے ہیں، استغفراللہ!
ماضی کا ذکر پورے افتخار سے کرتے ہیں، یعنی ماضی سے محبت کرتے ہیں کہ کیا بہترین وقت تھا……!
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
اور ماضی کی محبت ہی ہے جو ہمیں اپنے بڑوں کے کارنامے بیان کرنے بلکہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر اکساتے ہیں، اور ہم مزے لے لے کے ایسا کرتے رہتے ہیں۔ یعنی ہم ماضی میں رہتے ہیں اور اس میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کام وہ لوگ کرتے ہیں، جنہیں یا توحالات نے اتنے رگڑے لگائے ہوں کہ وہ ہار مان کے لمبی تان کر سوچکے ہوں، یا پھر ان کی سستی اور کاہلی مثالی ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی کچھ کرنا ہی نہیں۔ سو اس طرح ہار ماننا کہ پھر اٹھے ہی نہ،یہ تو موت کے مترادف ہے اور اس قسم کی سستی تو ایسی ہے جیسے کہ زندگی ملی ہی نہیں۔
ماضی کا اس انداز سے ذکرکرنا جب کہ آپ اسے واپس نہیں لاسکتے، سوائے اس کے اور کچھ بھی نہیں کہ اس سے بس ذہنی لذت لی جائے اور خود کو تسکین دیا جائے۔ یعنی ایک قسم کی مسکن دوا ہے جس طرح مسکن دوابندے کو سلادیتی ہے، اسے سکون آتا ہے۔اس طرح یہ بھی بندے کو سلا کر کچھ ذہنی سکون دے دیتا ہے۔
آپ کے بڑوں نے اگر کچھ کرکے دکھایا ہے، تو ان کا تذکرہ کرکرکے آپ انہیں خراجِ تحسین تو پیش کرسکتے ہیں، لیکن اس سے آپ بڑے تو نہیں ہوسکتے۔ صرف اس کا تذکرہ نری بے عملی،کاہلی اور موت ہے۔جب کہ ان کے کردار کا تذکرہ کرکے اس کو اپنے لیے مشعلِ راہ بناکر حرکت کرنا، تگ ودو کرنا، عملی جد و جہد کرنا زندگی ہے۔ زندہ انسان کو زندہ رہنا پڑتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔ صرف ذکرِ اسلاف واجداد اور ان کے کردار کا ذکر کرنے سے احساسِ زیاں رہے گا اور یہ بندے کو مفلوج کردیتا ہے کہ ’’ہائے، کیاتھے اور کیا ہوگئے ……!‘‘
تو اب چلو کھانے یا سونے کا وقت ہے۔ نہیں، کیا تھے کیا ہوگئے؟ تو اٹھو، کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ صرف یہی احساسِ زیاں ہو اور فرد کو ہو، تو وہ مفلوج یا مردہ اور قوم کو اگر ہو بحیثیتِ مجموعی تو پھر تو اجتماعی مقتل ہے۔
دیکھیں، آج تک مادہ پر اتنی محنت کی گئی ہے اور یہ انسانوں نے کی ہے، جو عملی تھے۔ان میں مسلمان اور غیر مسلم سب شامل ہیں کہ تحقیق و ایجاد تو ایک جاری و ساری عمل ہے۔ کسی نے کسی بھی وقت تحقیق کی، پھر ایجاد کیا، تو تحقیق جب منطقی نتیجہ پر پہنچی یا ایجاد ہوگیا، تو وہ تو دوبارہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں، اس کو مزید آگے لے جایا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں بھی یہی ہوا۔ کسی زمانے میں یونانی تھے۔ وہ فلسفی تھے، سائنس دان تھے۔ پھر مسلمانوں کا دور آیا۔ وہ فلسفی تھے،سائنس دان تھے۔بعد میں اہلِ مغرب آئے اور اب تک ہیں۔ فلسفی ہیں،سائنس دان ہیں۔ ایک تسلسل میں آگے چلتے ہیں۔ اب مادی اعتبار سے تو ہمارے خیال میں ایجادات اپنی انتہا کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اب تو انہی ایجادات کو آگے لے جایا جائے گا، جو ایک بڑا کمال ہے۔
تو ہم نے کیا کرنا ہے ؟ بنیاد تو فراہم کی گئی ہے، تو کیا ہم اسے آگے لے جاسکتے ہیں؟ کبھی ہم نے سوچا ہے جہاں علم ہو، عزم ہو اور اخلاص ہو، تو یقینا ایسا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تو ہر میدان میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ اقتصاد جو اساسی ضرورت ہے، وہ آج کے دور میں تو موقوف ہی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی پر کہ کس کے پاس کتنی صلاحیت ہے اور وہ کیا کچھ حاصل کرچکا ہے یا حاصل کرسکتا ہے!
البتہ اس عہد نے آسائشیں بہت دی ہیں، لیکن ساتھ ساتھ بہت ساری پیچیدگیاں بھی پیدا کی ہیں۔ یہ دور محیِّرالعقول بھی ہے اور مخیّرَالعقول بھی ہے، یعنی عقول کو حیران بھی کردیتا ہے اور عقول کو خیار یعنی آپشنز بھی دیتا ہے۔ تو ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ مادی ترقی تو کرتے رہیں گے، یہ فطری اور طبیعی علوم ہیں، لیکن انسان جو فطرتاً سماجی ہے۔ اس کے کچھ اخلاقی، روحانی، تہذیبی، حسی، نفسیاتی، جذباتی اور سیاسی تقاضے بھی ہیں اور اگر اس کو توجہ نہ دی جائے، تو نفسیاتی الجھنیں، ’’سٹریس‘‘ اور ’’ڈپریشن‘‘ پھر لازم ہیں۔
اب کے تو ماحول یہ بنا ہے کہ کہتے ہیں کہ محرم کی دسویں کو ایک خاتون ہاتھوں میں سونے کے کنگن ڈالے جارہی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا راستہ روکا او رکنگن نکالنے لگا، لیکن ساتھ ساتھ وہ رو بھی رہا تھا۔ لڑکی نے کہا تم کیوں رو رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا، بی بی !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج دسویں محرم ہے۔ اس دن حضرت حسینؓ اور اہلِ بیت پر بہت ظلم کیا گیا تھا۔ لڑکی نے کہا کہ آپ اتنے رحم دل ہیں کہ 1300 سال قبل کے ظلم پر رو رہے ہیں، تو میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کررہے ہو؟ اس آدمی نے جواباً کہا، بی بی! تمہیں تو معلوم ہے کہ زمانہ بہت بگڑ گیا ہے۔ اگر میں یہ کنگن نہ نکالوں، تو کوئی اور نکال لے گا اور شاید وہ آپ کی جان اور عزت بھی لے لے، تو آپ پر ترس کھاکر صرف کنگن نکالنے پر اکتفا کررہا ہوں ۔
بس اللہ معاف کرے، یہ ہے ہمارا وطیرہ۔
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔