ہمارا خطہ حالیہ چند ماہ کے دوران میں غیر معمولی تبدیلیوں سے گذراہے، جن سے استفادہ کی صورت میں نہ صرف جیواسٹرٹیجک منظرنامہ میں پاکستان کی مرکزی حیثیت بحال ہوسکتی ہے، بلکہ وہ ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر بھی دنیا کے نقشہ پر ابھرسکتاہے۔
چند ماہ بعد ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بے چین کیا کہ وہ افغانستان میں جلدازجلد اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑیں۔ فوجی انخلا کرکے شہریوں کو باور کرائیں کہ جو کارنامہ سابق صدر بش اور بارک اوباما نہ سرانجام نہ دے سکے، انہوں نے کر دکھایا۔ الیکشن میں ان کی کامیابی کا دار و مدار افغانستان میں امریکہ کی کامیابی قرارپایا، تو پاکستان کے لیے امکانات کے نئے در چوپٹ کھل گئے ۔
امریکہ او رطالبان کے درمیان پاکستان نہ صرف سمجھوتا کرانے میں کامیاب ہوا بلکہ معاہدے کے موقع پر وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی بھی قطر میں موجود تھے۔پاکستان کے حریف مذاکراتی میز تو درکنار، مذاکراتی عمل کے قرب و جوار میں بھی نہ پھٹک پائے۔اس معاہدے نے عالمی فضا ہی بدل ڈالی ۔ صدر ٹرمپ جو کل تلک دن رات پاکستان کو بے نقط سناتے نہ تھکتے، تعریف کے ڈونگرے برسانے لگے۔ ورلڈ بینک سے قرض حاصل کرنے سے لے کر ایف اے ٹی ایف سے جان چھڑانے میں انہوں نے پاکستان کی مدد کی۔
پاکستان نے طالبان کے علاوہ صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے ساتھ تعلقات کو نمایاں طور پر بہتر کیا، تاکہ وہ افغان سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا اعتماد حاصل کرسکے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ عسکری لیڈرشپ کے ہمراہ دارلحکومت کابل تشریف لے گئے، اور ان دونوں راہنماؤں کو اشتراکِ عمل کی پیشکش کی۔ پاکستان، افغانستان کے حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت میں ’’محور‘‘ کا کردار ادا کر رہاہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ کا پاکستان پرانحصار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں۔
دوسری طرف چین کے ساتھ تعلقات میں اب ایک نئی جہت آچکی ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کے حالیہ تصادم نے پاکستان اور چین کے تعاون اور اشتراک کو مزید گہرا کیا ہے۔ پاکستان کو بعض اوقات یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ ایشیا کی دوبڑی معیشتیں، چین اور بھارت ایک دوسرے کے تجارت کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر نہ بن جائیں۔ لداخ کی گلوان ویلی میں بھارتیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک نے وزیراعظم نریندمودی کی سیاست کو زیر و زبر کردیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اب تعلقات کی بہتری کے لیے کئی برسوں کی محنت درکار ہے۔
اس طرح پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے اکثر منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور باقیوں پر کام جاری ہے۔ بھارت اور چین کی قربت کے امکانات بھی اب تمام ہوچکے۔ دوسری جانب بھارت اب تیزی سے امریکہ اور چین مخالف اتحاد جس کی قیادت آسٹریلیا، جاپان اور تائیوان کررہے ہیں، کا سرگرم حصہ بننے جارہاہے۔ فطری طور پر چین کا انحصار پاکستان پر مزید بڑھے گا۔ کیوں کہ جس عالمی سردجنگ کا نقشہ بن رہاہے، اس میں غالباً پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہوگا جو چین کا پُراعتماد اتحادی ہونے کے باوجود مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ بھی تعلقاتِ کار رکھتاہوگا۔
چین اور بھارت کے تصادم نے بھارتی دانشوروں اور عسکری ماہرین میں اس بحث کو پروان چڑھایا ہے کہ بھارت بیک وقت دو جوہری صلاحیت کے حامل ممالک سے محاذ آرائی یا جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں بھارت کی دفاعی استعداد اور چین کا عسکری یا معاشی میدان میں مقابلہ کرنے میں نظر آنے والی ہچکچاہٹ نے اس کی سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کی کمزوریوں کو بھی طشت ازبام کردیا ۔ اس تناظر میں یہ استدلال زیادہ زور وشور سے سامنے آرہاہے کہ چین کے ساتھ مفاہمت کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔ بھارتی ماہرین کہتے ہیں کہ چین کو رام کرنے کی غرض سے انہوں نے اربوں ڈالر کا تجارتی خسارہ برداشت کیا لیکن چین کا دل موم نہ کیا جاسکا۔
چند ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان سے تناؤ کم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کی داخلی سیاست کے لیے پاکستان سے تصادم کو ہوا دینا ناگزیر ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں بہار کے الیکشن کا معرکہ برپاہونا ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی لڑائی نہ ہوتی، تو پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں یا فالس فلیگ آپریشن کے نام پر کی جانے والی مہم جوئی بہار کو بی جے پی کی گود میں ڈال سکتی تھی۔ بھارتی تزویراتی ماہرین چاہتے ہیں کہ مودی کوکسی طرح الیکشن کے بخار سے باہر نکالا جائے اور اسے پاکستان سے مفاہمت کی طرف آمادہ کیا جائے۔ چین سے ہونے والی حالیہ لڑائی نے نریندر مودی کی آہنی شخصیت کا طلسم توڑ دیا ہے۔ اب ہر کوئی سرچڑھ کر بول رہاہے ۔
بلوچستان، کراچی اور قبائلی علاقہ پاکستان کا سب سے بڑا سر درد بنے رہے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ صوبے کے سیاسی مسائل کو مزید مالی وسائل اور انتظامی اختیارات دے کر حل کیا گیا۔ منحرف بلوچ رہنما یورپ کے میکدوں سے آزاد بلوچستان کے نقشے جاری کرنے والے زخم چاٹ رہے ہیں۔ الطاف حسین جیسے لوگ جو کراچی کو مسلسل بے چین رکھتے تھے، نہ صرف غیر مؤثر ہوگئے بلکہ انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کراچی امن کی بانسری بجاتا ہے اور بلوچ گوادر کی بندرگاہ پر سیکڑوں مال بردار جہازوں کے لنگرانداز ہونے کے منتظر ہیں۔
گذشتہ دوبرسوں کی محنت اور سفارت کاری کے نتیجے میں پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل اترچکا ہے۔ داخلی سطح پر ایسے گروہوں کو کامیابی سے نکیل ڈالی جاچکی جو عسکری جتھے منظم کرتے اور سیاسی طاقت حاصل کرتے تھے۔ فرقہ پرستوں پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔ ملک کے اندر عمومی طور پر بین المذاہب ہم آہنگی پیداکرنے کی کوششوں کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ غیر مسلموں کے خلاف متعصبانہ رویے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان کے حقوق کے حوالے سے شہریوں کا ادراک بہترہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف خود کارروائی کریں گے۔اس عزم نے کئی گروہوں کے کس بل نکال دیے جو ریاست کے اندر ریاست کا خواب دیکھتے تھے۔
پاکستان کی سب سے بڑی طاقت سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کا ایک پیج پر ہونا ہے۔ ماضی کے برعکس ریاست کے سارے ستون اشتراک اور باہمی تعاون کے ساتھ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے سرگرم ہیں۔ داخلی اور خارجی سطح پر بہت سارے عناصر کو یہ اشتراک ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں پاکستانیوں کی مشکلات کم اور اسے داخلی قرار حاصل ہوا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ اسی اتحاد کا ثمر ہے۔
ریاست کے تمام ستون چند برسوں تک اسی اشتراک کی فضا میں کام کرتے رہے، تو پاکستان کو ایک ڈیڑھ عشرے میں بڑی اقتصادی اور عسکری قوت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔