’’ریاستِ مدینہ‘‘ (پاکستان) کے مبینہ وزیرِ اعظم عمران خان صاحب مسندِ اقتدار پر بیٹھنے سے پہلے ہر جلسہ، پریس کانفرنس اور انٹرویو میں خیبر پختون خوا کی مثالی پولیس کا ذکر ضرور فرماتے تھے۔ ہم چوں کہ خیبر پختون خوا میں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی ’’مثالی پولیس‘‘ کا علم تھا، تاہم ملک کے باقی حصوں کے وہ لوگ جن کا خیبر پختون خوا آنا جانا کم ہے، وہ عمران خان صاحب کی بات کا یقین کر بیٹھے۔
موجودہ صورتحال میں جب ہر شخص ’’کورونا‘‘ کی وجہ سے پریشان ہے، کاروبار بند اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، ہر شخص ذہنی مریض بن چکا ہے، ایسی صورتحال میں لوگوں کو ’’کامک ریلیف‘‘ کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں ایک شخص جو اپنا نام ’’امیرے‘‘ بتاتا ہے، نشے کی حالت میں کچھ پولیس عہدوں کو گالیاں دیتا ہے۔ ہم نے بھی وہ ویڈیو دیکھی، جس سے کچھ حد تک ’’کامک ریلیف‘‘ ملا۔ بعد میں پتا چلا کہ امیرے کا اصل نام رفیع اللہ ہے۔ وہ افغان پناہ گزین ہے اور پشاور کے ایک شادی ہال میں ہیڈ ویٹر ہے۔ تہکال میں رہائش پذیر ہے اور چار ماہ سے بے روزگار ہے۔
اگلے دن ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے جس میں وہ شخص تہکال پولیس سٹیشن میں کھڑا ہے۔ ویڈیو میں وہ معافی مانگتا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہتا ہے۔ مگر بدھ کو ایک اذیت ناک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے جس میں تہکال پولیس سٹیشن کے حوالات میں ’’مثالی پولیس‘‘ کے چند اہلکار امیرے کو برہنہ کرتے وقت اس کی ویڈیو بناتے ہیں۔ امیرے کے جسم پر تشدد کے نشان واضح نظر آتے ہیں۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ڈپریشن اور انزائٹی میں اضافہ یقینی تھا، اور ہو بھی گیا۔ شام کے وقت ایک دوست نے فون کیا اور غصہ کی حالت میں پوچھا کہ تم نے تہکال والی ویڈیو دیکھی ہے؟ مَیں نے جواباً ’’ہاں‘‘ کہہ دیا۔ اس نے پوچھا کہ مَیں نے تو سارے چینل دیکھے کسی پر بھی اس بارے خبر نہیں چل رہی؟ مَیں نے جواباً کہا، ’’ہاں!‘‘ تو اس نے پوچھا، کیوں؟ مَیں نے کہا، اس لیے کہ وہ پختون ہے۔
ہاں، پشتو کے دو چینل ’’خیبر نیوز‘‘ اور ’’مشرق نیوز‘‘ نے اس واقعہ بارے پروگرام چلائے۔
امیرے کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی برہنہ ویڈیو دیکھ کر دو بار خود کشی کی کوشش کی۔ یہ واقعہ اگر سندھ یا پنجاب میں ہوتا، تو پاکستانی چینل ہیڈ لائنز کے ساتھ ساتھ براہِ راست پروگرام چلاتے۔ مختلف لوگوں سے اس بارے ویوز لیتے۔ رات 8 اور 10 بجے کے ٹاک شوز پولیس کے خلاف ہوتے اور کئی دن تک پاکستانی چینل مذکورہ ویڈیو پر تبصرے فرماتے۔ لیکن خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی نوعیت الگ ہے، یہاں ایسے واقعے پر پاکستانی چینل دس پندرہ سیکنڈ کی خبر بھی نہیں چلا پاتے۔
چند روز قبل ضلع شانگلہ کے علاقہ کروڑہ میں ایک ٹرک ڈرائیور پر پولیس نے حوالات میں اتنا تشدد کیا کہ وہ جاں بحق ہوگیا۔ بعد میں پولیس والوں نے اس کی گردن میں چادر ڈال کر حوالات کے گیٹ سے باندھ لیا، تاکہ اس واقعہ کو خود کشی کا رنگ دیا جاسکے۔ ٹرک ڈرائیور بھی بدقسمتی سے پختون تھا، اس لیے پاکستان کا ’’آزاد میڈیا‘‘ اس اہم خبر سے بے خبر ہی رہا۔
اب واپس آتے ہیں امیرے کی طرف، مانتے ہیں کہ امیرے نے سوشل میڈیا پر گالیاں دیں۔ ’’پاکستان پینل کورٹ‘‘ میں اس کی سزا کے لیے کوئی دفعہ نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی کو گالی دے، تو عدالت میں گالی دینے والے شخص کے خلاف ہر جانہ (سول کیس) کا دعوا کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر خیبر پختون خوا میں چند عہدوں کو گالی دینے کی سزا حوالات میں کسی کو برہنہ کرکے اس کی ویڈیو بنانا اور اس پر تشدد کرنا ہو، تو پھر ’’علیشاہ زیرو زیرو سیون‘‘ کی والدہ اور ایک خواجہ سرا جو سوشل میڈیا پر جس طرح بھانت بھانت کی گالیاں بکتا ہے، تو میرے خیال میں خیبر پختون خوا کی ’’مثالی پولیس‘‘ ان دونوں کو برہنہ کرنے کی بجائے ان کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گی۔ لیکن شائد مثالی پولیس نے ’’علیشاہ زیرو زیرو سیون‘‘ کی والدہ اور مذکورہ خواجہ سرا کی گالیاں اب تک نہیں سنی ہوں گی۔
قارئین، ایبٹ آباد میں ’’کرنل کی بیوی‘‘ نے فورسز کو جو گالیاں دیں، اس کے خلاف بھی پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ موٹر وے پر تو فورسز کو گالیاں دینے کی سزا امیرے، علیشاہ زیرو زیرو سیون کی والدہ اور خواجہ سرا سے بھی سخت ہو۔ شائد پولیس ابھی تک کارروائی اور سزا کی نوعیت پر سوچ رہی ہو۔
شکر ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا ہے، جس پر لوگ ایسے واقعات کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ پتا نہیں کتنے امیروں کو پولیس نے حوالات میں ننگا کیا ہوگا۔ امیرے اپنی برہنہ ویڈیو دیکھ کر خود کشی کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’’مثالی پولیس‘‘ نے امیرے کو نہیں بلکہ خود کو ننگا کیا، قانون کو ننگا کیا، پوری ریاست کو ننگا کیا۔
خیبر پختون خوا کی ’’مثالی پولیس‘‘ اس طرح قانون، ملک اور آئین کو ننگا کرتی رہے گی۔ حکام ان کو معطل کرتے رہیں گے، ان کے خلاف ایف آئی آر کٹواتے رہیں گے اور قابلِ ضمانت دفعات لگا کر ان کو بچاتے رہیں گے، معطلی کے دنوں میں وہ پولیس لائن میں رہ کر پوری تنخواہ وصول کرتے رہیں گے اور کچھ عرصہ بعد ان کو دوسرے تھانوں میں لوگوں کو ننگا کرنے کے لیے ٹرانسفر کیا جاتا رہے گا۔
ویسے بھی موجودہ مبینہ حکومت نے مہنگائی، بے روزگاری اور لاعلمی کے ہتھیار سے پورے ملک کو ننگا کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ سب کی باری آئے گی۔ سب کو امیرے کی طرح ننگا کیا جائے گا۔
بقولِ شاعر:
مَیں آج زد پہ اگر ہوں، تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔