ایسے تھے ہمارے اسلاف

عرض کیا گیا کچھ میوہ آپ کی خدمت میں تحفتاً آیا ہے۔ میوہ کیا تھا، معلوم ہوتا تھا تازہ پھلوں کی دکان لگی ہے۔ سیب، انار، انگور، جانے کیا کیا کچھ۔ پھل بھی اعلیٰ قسم کے تھے۔ ایسے خوش رنگ اور خوشبودار کہ دور سے نظر پڑتے ہی دل للچائے۔ یہ تحفہ اتفاق سے ایک ایسے گھر میں آیا تھا جہاں بڑی مدت سے بڑوں اور بچوں نے پھل نہیں کھائے تھے، جب کہ ایک وقت تھا کہ اس گھر میں کثرت سے پھل آتے تھے کہ ہر وقت دستر خوان ان سے سجا رہتا تھا۔ اللہ کی شان کہ اب اس گھر کے بچے موسمی پھلوں کے ایک ایک دانے کو ترستے تھے۔
بیوی بچوں کی وجہ سے آدمی اکثر اپنے نفس پر قابو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ بچے کھائیں، بیوی کھائیں۔ بس مال وصول کرو، تاکہ بال بچے اچھا پہنیں اوڑھیں، تاکہ بیوی، پڑوسیوں اور سہیلیوں میں ناک اونچی کرتی چلے۔ یہ مال و روپیا آتا کہاں سے ہے؟ یہ باتیں راز کی ہیں۔ جب دلوں سے خوفِ خدا اُٹھ جاتا ہے، تو پھر انسان طرح طرح سے روپیا بٹورتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ سب اس کی ذہانت کی کمائی ہے، مگر غور کا مقام ہے کہ جو لوگ سرکاری عہدے اور مرتبے سے فائدہ اُٹھا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں، وہ دوہرے عذاب کے مستحق ہوں گے۔
اللہ کے رسولؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ جو شخص مملکت کی کسی خدمت پر مامور ہو، چھوٹی ہو یا بڑی وہ عوام یا اہلِ معاملہ سے کوئی تحفہ وصول نہیں کرسکتا۔ یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘
پھل پھلاری کا یہ زبردست تحفہ تھا۔ یہ تحفہ اللہ کے جس بندۂ صالح کے پاس آیا تھا، اُس نے اسے واپس کردیا تو کسی نے کہا، یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ یہ تحفہ تو آپ کے عزیزوں نے بھیجا ہے۔ کہا، مَیں جانتا ہوں۔ کہا گیا، تحفہ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ رسولِ کائناتؐ بھی تحفہ واپس نہیں کرتے تھے۔ جواب ملا، اللہ کے رسولؐ کے پاس تحفے اخلاص سے آتے تھے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تحفہ میرے پاس کس لیے اور کیوں آیا ہے؟ اس لیے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں صاحبِ اقتدار ہوں۔ مَیں نے ان کا جو ناجائز مال و اسباب بیت المال میں جمع کرادیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں واپس مل جائے۔ حالاں کہ یہ مال و اسباب ان لوگوں نے غصب کیا ہے۔ مجھے ورغلانے کے لیے تحفے کا سہارا لیا گیا ہے۔ یہ تحفہ نہیں رشوت ہے۔ بولو! کیا مَیں اس رشوت کو قبول کرلوں؟ مشورہ دینے والا سوال سن کر خاموش ہوگیا۔
یہ سوال پوچھنے والے تھے ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز‘‘ جو اپنے وقت کے امیر المومنین تھے۔ امام ثوری نے انہیں پانچواں خلیفۂ راشد کہا ہے۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔