بھارت چین تنازعہ، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

بھارت اور چین کے مابین مدتوں سے منجمد سرحدی تنازعہ نے یک دم انگڑائی کیا لی کہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔
5 مئی کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چین اور بھارت کی مسلح افواج کے درمیان مقبوضہ لداخ میں ’’دھینگا مشتی‘‘ دکھائی گئی۔ دو دنوں تک دونوں ممالک کے فوجی ایک دوسرے کو لاتوں اور مکوں سے زخمی کرتے رہے۔ ابھی تک دونوں ممالک کے درجن بھر فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج نے تازہ کمک طلب کی، اور تازہ مورچہ بندی شروع کی۔
تین دن بعد لداخ سے بہت دور بھارتی ریاست سکم کی سرحد پر بھی بھارت اور چین کی فوج کے درمیان ایک اور جھڑپ ہوئی۔ اب تک چار مختلف مقامات پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
چین کی حکومت اور میڈیا کی طرف سے بہت کم معلومات سامنے آرہی ہیں کہ آخر لداخ میں شروع ہونے والے تناؤ کا محرک کیا ہے؟ اس کے برعکس بھارتی اور عالمی میڈیا چین اور بھارت کے درمیان تصادم کے امکانات پر تبصروں سے اَٹا پڑا ہے۔ عالم یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو پیشکش کی کہ وہ ثالثی کرانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی یہ پیشکش بھارت کو بہت گراں گزری کہ انہیں ٹرمپ سے توقع تھی کہ وہ بھارت کی پشت پر کھڑا ہوگا، لیکن ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ثالثی کی پیشکش کرکے ایک ہی پلڑے میں تولا۔
یہ کہنا ابھی دشوار ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان جاری موجودہ تنازعہ سرحدی مسئلہ ہے یا چین پر دباؤ ڈالنے کی کسی عالمی مہم کا شاخسانہ؟ البتہ اسے عالمی مہم سے مکمل طور الگ کرکے بھی نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ کیوں کہ امریکی محکمۂ خارجہ برائے جنوبی ایشیا کی اعلیٰ عہدیدار ’’ایلس ویلز‘‘ نے گذشتہ ہفتے الزام لگایا تھا کہ چین علاقائی توازن خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی ’’ایلس ویلز‘‘ ہیں جو متعدد مرتبہ ’’پاک چائینہ اکنامک کوریڈور‘‘ کے خلاف بھی بیانات داغ چکی ہیں۔
3,488 کلومیٹر طویل سرحد دونوں ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے، جس کا زیادہ تر حصہ متنازعہ یا ابھی تک غیر واضع ہے۔1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی۔ ایک بہت بڑے علاقے پر چین نے قبضہ کرلیا اور 90 ہزار مربع کلومیڑ کے لگ بھگ بھارت کے زیرِانتظام علاقے پر چین دعویٰ کرتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین نے لداخ کے علاقے جسے ’’اکسائی چن‘‘ کہا جاتاہے، کے 38000 مربع کلومیٹر علاقہ پر غیر قانونی طو رپر قبضہ کیا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو ’’لائن آف ایکچول کنٹرول‘‘ کہا جاتا ہے۔
لداخ کا اکسائی چن کا علاقہ چین کے لیے اسٹرٹیجکلی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی علاقے سے ہو کر چین تبت کے ساتھ زمینی رابط استوار کرتا ہے۔ تبت اور چین کے درمیان کوئی دوسرا زمینی رابطہ نہیں۔ چینی ذرائع کے مطابق بھارت لداخ کی سرحد پر مسلسل فوجی انفرا سٹرکچر تعمیر کر رہا ہے۔ نئی نئی سڑکیں اور فضائی مستقر تعمیر کیے جارہے ہیں۔
چین کو خدشہ ہے کہ یہ انفراسڑکچر اس کے خلاف اور خاص طور پر تبت میں بغاوت کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ پانچ مئی سے اس علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور بھاری ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی جمع کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کی سیاسی لیڈر  شپ اور دفترِ خارجہ اس کشیدگی کے بارے میں محتاط لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں، لیکن لداخ میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں عالمی میڈیا کے مطابق مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق 10 ہزار سے زائد چینی فوجی دستے سرحد پر خیمہ زن ہیں۔ بھارت بھی کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھانا چاہتا۔ وزیراعظم نریندر مودی اگر کوئی لچک دکھاتے ہیں، تو ان کا امیج بری طرح متاثر ہوگا اور مخالفین انہیں بزدلی کا طعنہ دے سکتے ہیں۔ لہٰذ ا وہ محتاط ہیں، لیکن بھارتی افواج کی جنگی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ چین کو اس وقت کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں، جن کے تناظر میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کو جاری رکھنے میں وہ دلچسپی رکھتاہے۔
باقی دنیا کی طرح چین کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ترقی کی موجودہ رفتار برقرار رکھنا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ اس کے تعلقات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ امریکہ کی الیکشن مہم میں دونوں صدارتی امیدوار چین کے خلاف بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لینے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تبت اور سنگیانگ کے اندر طویل عرصے سے بے چینی پائی جاتی ہے، جو بعض اوقات باقاعدہ شورش کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تائیوان بھی چین کے خلاف مغربی اتحادیوں کا ہمرکاب ہے۔
’’ساؤتھ چائینہ سی‘‘ میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے جو بحری تجارت کا بہت بڑا مرکز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو بھی ملک ساؤتھ چائینہ سی کو کنٹرول کرے گا، وہ ایشیا کی شہ رگ پر بیٹھ جائے گا، یعنی دنیا کی تجارت کا پچاس فی صد اس کے کنٹرول میں آجائے گا۔ چین چاہتا ہے کہ ’’ساوتھ چائینہ سی‘‘ میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کا کم سے کم اثر و رسوخ ہو۔
بعض سینئر بھارتی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ کوئی چھوٹا سا حادثہ بھی باقاعدہ جنگ شروع کرا سکتا ہے۔ ہزاروں بھارتی اور چینی فوجی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔
ہتھیار اگرچہ اگلے مورچوں پر پائے نہیں جاتے، لیکن عقب میں قائم کیمپوں میں موجود ہیں۔
چین ایک طرح سے بھارت کو اس کشیدگی کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ مغربی ممالک اور آسٹریلیا بہت دور بستے ہیں۔ پڑوسیوں کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں، تو وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ چین کے ساتھ کشیدگی اگر نہ رُکی، تو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے تجارتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی دوسرے محفوظ علاقہ کا رُخ کرنا شروع ہوجائیں گے، اور بھارت کا ترقی اور خوشحالی کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کشیدگی کو جنگ میں بدلنے نہیں دے گی۔ جنگ دونوں کے مفاد میں ہے اور نہ دنیا کے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ یہ کشیدگی کچھ عرصہ جاری رہے، تاکہ بھارت مغربی ممالک کے ساتھ کھڑے ہونے سے پہلے سو بار اس اتحاد کے منفی اثرات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔