وعدے، وعدے اور دعوے تاحال دعوے ہی ہیں

انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی حکومت نے جہاں تبدیلی کا نعرہ لگا کر پختونخوا کے عوام سے ووٹ وصول کیا، وہی انہوں نے عوام کو دکھائے گئے خوابوں کوحقیقت کا رنگ دینے کے بلند وبالا دعوے بار بار دہرانا شروع کئے، تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
خیالِ حسن میں یوں زندگی تمام ہوئی
چار سال گزر گئے لیکن وہ وعدے وعدے اور دعوے، دعوے ہی رہے اور وہ تمام خواب اب بھی عوام کی آنکھوں میں موتیوں کی مانند چمک رہے ہیں۔ نوے دن میں جو تبدیلی آنی تھی، شاید اس تبدیلی سے پختونخوا کا راستہ کہیں کھو گیا ہے۔ یاپھر پی ٹی آئی کو ’’مبارک ایام‘‘ کا انتظار ہے، جن میں یہ مبارک تبدیلی آنی ہے۔ الیکشن مہم میں مغربی جمہوریت کے اقدار و اخلاقیات کی جو مثالیں دی جاتی تھیں، وہ محض شعبدہ بازی ثابت ہوئیں۔ زمینی حقائق کواگر غیر جانبدار ہوکر دیکھا جائے، تو اس حکومت نے کئی قابلِ تحسین کام کئے لیکن اگر ان کا منصفانہ تجزیہ کریں، تو ان میں بھی کوئی ایسا قابلِ فخر کام یا منصوبہ نہیں ہے، جس کو پورے اعتماد کے ساتھ سو فیصد بہتریا مکمل سمجھا جائے۔ میرے مطابق تو شاید پچاس فیصد بھی نہیں۔ مزید برآں ایسے کام تو پچھلی حکومتیں بھی کرتی آئی ہیں، جنہیں نئی حکومت آتے ساتھ ہی روک لیتی ہے، کیونکہ اس میں انہیں کوئی سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔

چار سال گزر گئے لیکن وہ وعدے وعدے اور دعوے، دعوے ہی رہے اور وہ تمام خواب اب بھی عوام کی آنکھوں میں موتیوں کی مانند چمک رہے ہیں۔ نوے دن میں جو تبدیلی آنی تھی، شاید اس تبدیلی سے پختونخوا کا راستہ کہیں کھو گیا ہے۔ یاپھر پی ٹی آئی کو ’’مبارک ایام‘‘ کا انتظار ہے، جن میں یہ مبارک تبدیلی آنی ہے۔

کرپشن ملک کے لئے کینسر سے کم خطرناک نہیں ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے کی جانے ولی ہر کوشش کو سراہا جاتا ہے۔ اوپر سے پی ٹی آئی کی تبدیلی کے نعرے کو عوام میں خاصی مقبولیت ملی۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے اپنے ووٹ سے مذکورہ حکومت کو تبدیلی کی ذمہ داری بھی سونپ دی لیکن تبدیلی سرکار نے آج خود اپنے ہاتھوں سے بنائے احتساب کمیشن کو تالے لگا دیئے ہیں۔ وجہ شاید یہ تھی کہ تحریک انصاف کے اپنے وزیر اور ایم پی ایز کرپشن کے الزامات میں پکڑے جانے لگے اور پارٹی میں باغی ٹولے بننے لگے۔ اس خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے احتساب کمیشن کے قوانین اور ضوابط طے کرنے کو جواز بنا کر ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ گو کہ’’ پہلوان‘‘ جب انسان کے بنائے گئے احتساب قانون سے کھرے نہیں نکل سکتے، تو قیامت کے دن اللہ کے احتساب سے کیسے گزریں گے؟ قومی وطن پارٹی کے وزیروں کو کرپشن کے الزام میں حکومت سے نکال باہر کرنا اور پھر سیاسی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے واپس شامل کرنا اس حکومت کا سیاہ ترین باب ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ مصلحت اور بے غیرتی میں صرف لکھنے کے ا نداز کا فرق ہے۔

قومی وطن پارٹی کے وزیروں کو کرپشن کے الزام میں حکومت سے نکال باہر کرنا اور پھر سیاسی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے واپس شامل کرنا اس حکومت کا سیاہ ترین باب ہے۔

اس صوبے کا بجٹ ہر سال خسارے کا شکار رہتا ہے۔ بجٹ جوعوام کی خوشحالی پر خرچ ہونا ہوتا ہے، واپس وفاق سرکل ہوجاتا ہے۔یہ جواز بالکل غلط ہے کہ کرپشن کے ڈر سے نہیں خرچ کرپاتے۔ کیونکہ قانون بنانا آپ کا کام ہے، جس کے لئے عوام آپ کو اپنے ایک نمائندے کی صورت میں اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔ ایک طرف کرپشن کے خاتمے کے دعوے، تو دوسری طرف یہ ڈر کیسا؟ عوام کو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے محرومیوں اورمایوسیوں کا شکار کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ایک’’ شوخے‘‘ وزیر نے تواس بار عوام کو’’عیدی‘‘ ایک الگ انداز میں دینے کا فیصلہ کیا۔ حرام مشروب کی بوتل میں شہد ڈالنے کی بھرپور کامیابی کے بعد’’ہیلی کاپٹر عیدی‘‘ پیش کی گئی۔ اس عیدی میں خاص بات یہ تھی کہ ٹویٹرکے ذریعہ عوام کو مطلع کیا گیا کہ ایک مخصوص وقت، مخصوص جگہوں پر ہیلی کاپٹر سے عوام پر پیسے پھینکے جائیں گے، جو عوام کی عیدی ہوگی۔کسی باشعور وعقلمند انسان کے کہنے پر یہ ٹویٹ ہٹایا گیا۔ گویا پیسے کا استعمال اب پختونخوا کے عوام پر ایسے ہی بھونڈے طریقے سے ہوگا۔کیونکہ حکومت کے پاس عوام کی فلاح کے لئے منصوبے یا کوئی خاص سوچ نہیں ہے یا پھر بجٹ کو خسارے سے بچانے کے لئے یہ ’’نیک‘‘ کام کیا جا رہا تھا۔
خیبر پختون خوا میں بیشتر منصوبے عدالتی احکامات (سٹے آرڈرز) کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ حکومت کو اپنی گرتی ساخت بچانے کے لئے دوسری اپوزیشن جماعتوں کی عزت افزئی کا موقع ملا ہے، جس میں حکومت کی مخصوص پارٹی کی جانب سے تربیت بھی ہے۔
خواہشِ اقتدار کے سبب خیبر پختونخوا اس وقت مختلف جماعتوں کی رسہ کشی کا شکار ہے۔ ایک ہی حلقے سے منتخب عوامی نمائندہ صرف حلقے کے ان افراد کے مسئلے حل کرتا ہے، جنہوں نے اسے ووٹ دیا ہو۔ اور یوں آدھے سے زیادہ لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے، جو الیکشن میں کامیاب امیدوارکے بجائے کسی دوسرے امیدوارکو ووٹ دے چکے ہوتے ہیں۔
ترقی کے قصیدے جو میڈیا پر پڑھے جاتے ہیں، کے برعکس ترقی اب بھی سڑکوں، گلیوں اور نالوں میں رُل رہی ہے۔ ایک بار بھی اگربارش ہوجائے، تو تعمیراتی منصوبوں کا پول کھل جاتا ہے۔ کوئی ایسا میگا پراجیکٹ نظر نہیں آتا کہ جس کی وصولی آنے والے الیکشن میں کی جائے۔

خیبر پختون خوا میں بیشتر منصوبے عدالتی احکامات (سٹے آرڈرز) کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

پولیس جسے ایک بہترین ادارے کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے، اس پر آج بھی عوام کا اعتماد پوری طرح بحال نہ ہوسکا۔ عوام اب بھی اپنے محافظوں سے خائف ہیں۔
اس طرح تحریک انصاف کا پیش کردہ پروگرام’’صحت کا انصاف‘‘ ایک بہتر ین اور قابلِ ستائش سوچ ہے، لیکن سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کا معیار جوں کا توں ہے اور عوام اسی طرح بے یقینی کے عالم میں صحت کے اداروں پر اعتماد کرنے سے کتراتے ہیں۔آج بھی اگر کسی کے پاس نجی ہسپتال کے اخراجات برداشت کرنے کی گنجائش ہو، تو وہ سرکاری ہسپتال جانے سے گریز کرتا ہے۔ اس طرح تعلیمی معیارمیں اگر بہتری آئی بھی ہے، تو ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہوسکی ہے۔ جس تعلیمی انقلاب کی بات الیکشن سے پہلے کی جاتی تھی،عوام آج تک اس کے منتظر ہیں۔ مساوی نظامِ تعلیم رائج ہوا نہ کسی حکومتی نمائندے نے اپنے بچوں کو نجی اداروں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کرایا کہ جس کو دیکھ کر عوام کا اعتماد بحال ہو۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ خیبر پختون خوا پر بھی توجہ دیں اور اسے لاوارث نہ چھوڑیں۔ دھرنوں اور اپوزیشن کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ الیکشن میں کارکردگی بھی دکھانا ہوگی جو آج تک دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ صرف پرویز خٹک کی نظروں میں ’’سب ٹھیک‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔ عوامی منصب صرف ایمانداری نہیں بلکہ کارکردگی دکھانے سے چلتے ہیں۔ ایماندار ہونا ذاتی شخصیت پر اثر انداز تو ہوسکتا ہے لیکن حکومت اپنی رعایا کے حقوق کا بوجھ اٹھانے کا نام ہے۔
تبھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دریائے نیل کے پاس اگر کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے، تو اس کا بھی مجھ سے حساب مانگا جائے گا۔