نیکیوں کا موسمِ بہار شروع ہونے والا ہے، مگر دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلنے کی وجہ سے امسال اللہ کے گھروں میں ہر سال کی طرح نمازیوں کا جمِ غفیر نظر نہیں آئے گا، بلکہ ہر سال نمازِ تراویح میں اللہ کے پاک کلام کو سننے اور سنانے والے حضرات بھی اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہوئے اپنے گھروں ہی میں نمازِ تراویح ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ برکتوں والے مہینا میں اپنی عبادت کی مقدار بڑھائے۔ اسی لیے رمضان المبارک میں مسجدیں خاص کر نماز جمعہ کے لیے نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ نیز نبی کے فرمان کے مطابق ماہِ رمضان میں ہر مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق سخاوت سے کام لیتا ہے۔ چناں چہ غربا ومساکین کو بھی اسی ماہ میں سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کا رمضان میں ہی نکالنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر ہمیں صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے، تو ایک سال گزرنے پر فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی کردینی چاہیے، خواہ کوئی سا بھی مہینا ہو۔ مگر لوگ اپنے صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں اور رمضان میں ایک نیکی کا اجر 70 گنا ملتا ہے۔ اس لیے لوگ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، اور پھر ہر سال رمضان ہی میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اِن دنوں غریب طبقہ ہماری مدد کا خاص محتاج ہے۔ اس لیے اس ماہ میں غریبوں کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
ہمیں حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ہمارے مولا نے ہماری طاقت کے مطابق ہی ہمیں مکلف بنایا ہے۔ ہمیں یقینا ہر وقت خاص کر اس ماہ کی بابرکت گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ اس وبائی مرض کے خاتمہ کے لیے دعائیں بھی کرنی ہیں۔ کیوں کہ ہر وقت خاص کر ایسی مصیبت زدہ حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اطبا کی تحقیق کے مطابق یہ مرض متعدی ہے یعنی یہ مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس ماہِ مبارک میں بھی حتی الامکان اپنے گھروں میں رہیں اور نمازیں وقت پر ادا کریں۔ کیوں کہ اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ نمازوں کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ پانچ فرض نمازوں کے ساتھ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق اور نمازِ چاشت جیسی نفل نمازیں بھی ادا کریں۔ نمازوں کی پابندی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بے حیائی اور عریانیت کے پروگراموں کو دیکھنے سے خود بھی بچیں، اور اپنے بچوں کی خاص نگرانی رکھیں۔
فرمانِ رسول کے مطابق کسی روزہ دار کو افطار کرانے پر روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، مگر اس کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کرنا ضرو ری نہیں ہے، بلکہ اگر آپ کے تعاون سے چند کھجوریں یا صاف پانی کسی غریب کے دستر خوان پر افطار کے وقت پہنچ جائے، تو اِن شاء اللہ حدیثِ نبوی میں مذکور ثواب ضرور ملے گا۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا : جس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا، تو اُس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)
ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرادے۔ (بیہقی، شعب الایمان)
لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجدوں کو آباد رکھنے کے لیے صرف چند حضرات ہی پنچ وقتہ نماز مع تراویح مسجد میں ادا کریں، باقی سبھی حضرات نمازِ تراویح اور دیگر نمازیں اپنے گھروں ہی میں ادا کریں۔ پورے ماہ، نمازِ تراویح پڑھنا سنت ہے اور تراویح میں مکمل قرآن کریم سننا یا سنانا دوسری مستقل سنت ہے۔ لہٰذا اگر حافظِ قرآن مل جائے، تو بہتر ہے تاکہ دونوں سنتوں پر عمل ہوجائے، ورنہ قرآن کریم کی آخری چھوٹی سورتیں ہی پڑھ کر نمازِ تراویح گھر پر باجماعت یا تنہا پڑھیں۔ خواتین بھی گھر میں ہونے والی نمازِ تراویح میں شرکت کر سکتی ہیں، اگرچہ خواتین کا تنہا نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ نمازِ تراویح کی اہمیت کے متعلق رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
٭ رمضان اور روزہ کیا ہے؟ رمضان کا مہینا چاند کے کیلنڈر کے اعتبار سے نواں مہینا ہے، جس کے روزے رکھنا ہر مسلمان بالغ صحت مند مرد و عورت پر فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینا پائے ، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔‘‘ صوم (یعنی روزہ )کے لفظی معنی امساک یعنی رُکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں ’’طلوعِ صبحِ صادق سے لے کر غروب ِآفتاب تک روزہ کی نیت کے ساتھ کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رُکنے کا نام صوم ہے۔‘‘
٭ رمضان اور روزہ کی اہمیت اور فضیلت: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے ہر (نیک) عمل کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے، لیکن روزہ کا بدلہ مَیں خود ہی عطا کروں گا۔ کیوں کہ وہ میرے لیے ہے۔
دوسری روایت کے مطابق میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ انسان کھانے پینے اور جنسی شہوت سے صرف میری وجہ سے رُکا رہتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں۔ ایک افطار کے وقت (وقتی ) اور دوسری اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت (دائمی)۔ (بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا، مگر روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ‘‘ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔
بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ مَیں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔
اللہ اللہ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں وزمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا، یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔
روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا: ’’الصَّوْمُ لِی‘‘ روزہ میرے لیے ہے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں:
٭ روزہ دار کے منھ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
٭ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعائے مغفرت کرتی ہیں، اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
٭ جنت ہر روز ان کے لیے سجائی جاتی ہے۔
٭ اس ماہِ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔
٭ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزاز، بیہقی، ابن حبان)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے ہر شب و روز میں اللہ کے یہاں سے جہنم کے قیدی چھوڑے جاتے ہیں، اور ہر مسلمان کی ہر شب وروز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (بزاز، الترغیب والترہیب)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی۔ (مسند احمد، ترمذی ، صحیح ابن حبان)
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ جب حضورؐ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا، آمین! جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا، آمین! جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا، آمین! جب آپ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے، تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، اس وقت جبرائیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے۔ جب پہلے درجہ پر مَیں نے قدم رکھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینا پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ مَیں نے کہا، آمین! پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے۔ مَیں نے کہا، آمین! جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا، تو انہوں نے کہا، ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں۔ مَیں نے کہا، آمین! (بخاری، ترمذی)
٭رمضان اور قرآن کریم:۔ قرآنِ کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چناں چہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضورِ اکرمؐ کا رمضان شریف میں تلاوت ِقرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرائیل علیہ السلام کا رمضان شریف میں نبی اکرمؐ کو قرآنِ کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختمِ قرآن کا مسنون ہونا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو بتلاتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے۔ تلاوتِ قرآنِ پاک کے ساتھ قرآنِ کریم کو علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ روزانہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو، تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے واقفیت کے بعد اس پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ہمارے لیے آسان ہو۔
٭ سحری:۔رسولؐ اللہ نے فرمایا : خود حق تعالیٰ شانہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں ۔ (طبرانی، صحیح ابن حبان)
متعدد احادیث میں رات کے آخری وقت میں سحری کھانے کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ایک دو لقمے کھانے سے بھی سحری کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، اِن شاء اللہ۔
٭ افطار کے لیے کھجور یا پانی بہتر ہے:۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو، تو وہ کھجور سے روزہ افطار کرے۔ کیوں کہ اس میں برکت ہے۔ اگر کھجور نہ پائے، تو پھر پانی ہی سے افطار کرے۔ اس للیے کہ پانی نہایت پاکیزہ چیز ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ مغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجورسے روزہ افطار فرماتے تھے، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں، تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے تھے، اور اگر خشک کھجور بھی نہ ہوتی، تو چندگھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ (ابوداود)
٭ افطار کے وقت دعا:۔ افطار کے وقت چند دعائیں نبی اکرمؐ سے ثابت ہیں، جن میں سے دو دعائیں یہ ہیں: ’’اللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ‘‘ (سنن ابوداود، باب قول عند الافطار، حدیث نمبر 2358)
’’ذَہَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ العُروقُ وَثَبَتَ الاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہ‘‘ (سنن ابوداؤد، باب قول عند الافطار، حدیث نمبر 2357) غرض یہ کہ یہ دونوں دعائیں ایک ساتھ یا دونوں میں سے کوئی ایک یا اس موقع پر حضورِ اکرمؐ سے ثابت شدہ کوئی دوسری دعا مانگی جاسکتی ہے۔
٭ رمضان اور شبِ قدر:۔ رمضان کی راتوں میں ایک رات شب ِقدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر اور برکت کی رات ہے، جس میں عبادت کرنے کو قرآنِ کریم (سورۃ القدر) میں ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے۔ ہزار مہینے کے 83 برس اور 4 ماہ ہوتے ہیں۔ گویا اِس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔ احادیث کی روشنی میں علما حضرات نے تحریر کیا ہے کہ شبِ قدر، رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اگرچہ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ موت اپنے وقت پر آتی ہے اور حالات اللہ ہی کی طرف سے آتے ہیں، مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہماری دینی وسماجی وقومی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا کورونا وبائی مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس ماہِ مبارک میں اللہ سے اس بیماری سے محفوظ رکھنے کی دعائیں کریں۔
………………………………………..