پوری دنیا اس وقت ایک آفت کی لپیٹ میں ہے۔ کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کم و بیش ہلاکتیں چالیس ہزار سے تجاوز کرتی نظر آ رہی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ پوری دنیا میں یہ تعداد لاکھوں میں جائے۔ دیکھا جائے، تو یہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کرونا کی وجہ کچھ بھی ہو، کسی نا کسی طرح انسان قدرت کے طے شدہ معیارات کو چھیڑنے کا مجرم بنا، توہی کرونا جیسی وبا سالوں صدیوں میں کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔
آپ دیکھیے، اللہ نے کس قدر حسین انتظام کیا تھا کہ سورج جو روشنی کا منبع ہے، اس سے شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ ان شعاعوں سے کرۂ ارض پہ نباتات، حیوانیات، حشرات اور حضرتِ انسان سب مل جل کر توانائی پاتے ہیں۔ سورج کی روشنی پہ ہی ان سب کی زندگی کا دارومدار ہے، لیکن اسی سورج کی روشنی کے ساتھ کچھ ایسی شعاعیں بھی ہیں کہ جو زمین پہ آ جائیں، تو یہاں زندگی کا وجود مشکل ہو جائے۔ گلیشیرز کا پگھلنا، سیلاب آنا، جنگلات کا ختم ہونا، تمام حوالوں سے قدرت، حضرتِ انسان کو سنبھلنے کا موقع دیتی ہے کہ تم ٹریک سے ہٹ رہے ہو، وارننگ سمجھو اور ٹریک پر واپس آ جاؤ، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
عالمی درجۂ حرارت کی وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن ہم اوزون جیسا بہترین نظامِ قدرت اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے پہ تل جاتے ہیں، قدرت خاموش تماشائی تو نہیں رہتی۔ وہ حضرتِ انسان کی گستاخیوں کو کتنا سہے، نتیجتاً کوئی وبا پھیلتی ہے اور پوری دنیا کمروں میں بند ہو جاتی ہے۔ گاڑیاں رُک جاتی ہیں، اور سائنس دانوں کی حیرت کا ٹھکانا نہیں رہتا کہ اوزون کی تہہ میں پڑنے والا خلا پُر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ قدرت نے دیکھا کہ انسان تو سیکھے گا نہیں، اسے سکھانا پڑے گا۔ یہ تو اووزون جیسا بہترین نظام خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دے گا، لہٰذا جھٹکا دینا تو لازمی ہے۔
دولت کا ارتکاز دیکھ لیجیے۔ پوری دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم عام سی بات ہے۔ جس کے پاس دولت کے انبار ہیں، وہ غریب کو جھکائے جا رہا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوئے جا رہا ہے۔ قدرت یہاں بھی بہت کچھ وقتاً فوقتاً سکھانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن انسان بھلا کب سیکھتا ہے، جب تک اسے ڈانگ سوٹے سے ہانکا نا جائے۔
اسلام نے زکوٰۃ کا کتنا بہترین نظام دیا، اس کے علاوہ خمس جیسا مثالی نظام بھی ایک طرح سے موجود ہے، لیکن اسلامی دنیا کے کتنے سربراہان ہیں جو اس نظام سے عوام کی فلاح کے لیے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ دیگر عالمی طاقتیں دیکھ لیجیے۔ ہر کوئی اپنی دولت کے انبار بڑھانے میں لگا ہوا ہے، اور غریب ممالک کا خون آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے قائم کر کے چوسا جا رہا ہے۔ قدرت کو جلال آتا ہے، تو پھر حضرتِ انسان کے دولت کے یہ انبار بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ آج حال یہ ہے کہ اپنی دولت کے زعم میں مبتلا طاقتیں گھٹنوں کے بل ہو چکی ہیں۔ لاشیں ٹرکوں میں بھر بھر لے جا رہے ہیں اور کوئی سبیل نہیں ہو پا رہی۔ کوئی چارہ نظر نہیں آتا کہ کیا کیا جائے کہ اس وبا سے چھٹکارا مل سکے۔ کچھ سپر پاؤر یہاں بنتے ہیں، ایک سپر پاؤر اوپر بھی ہے نا۔ جب وہ توازن بگڑتے دیکھتی ہے، تو پھر وہ ایک ہی چھڑی سے سب کو ہانکتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
دنیامیں اسلحے کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوڑ جاری ہے۔ ایٹمی طاقت، میزائل ٹیکنالوجی، آب دوزیں، فائٹرز، ائیر کرافٹ کیرئیر، ہر طرح کا گولہ بارود، اسلحے کے ڈھیر لگے ہیں۔ پوری دنیا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اسلحہ بناتی ہے، خریدتی ہے، بیچتی ہے۔ وجہ کیا ہے کہ ایک دوسرے پہ اپنی دھاک بٹھانی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی حاکمیت ثابت کرنی ہے، اور کمزور کو بزورِطاقت دباتے ہوئے اپنی حاکمیت کا سکہ پوری دنیا سے منوانا ہے۔ یہاں بھی حضرتِ انسان نے خود کو عقلِ کل سمجھ لیا ہے، لیکن جو کل جہانوں کا مالک ہے اسے جلال آ گیا۔ اسلحے کے انبار دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گولہ بارود وہیں کا وہیں رہا اور پوری دنیا سے لاشیں اٹھنے لگیں۔ اب بندوقوں کو زنگ لگ رہا ہے اور کمزور و طاقتور ایک ہی صف میں آ گئے ہیں۔ حال یہ ہے کہ لاکھوں مرنے کو اپنی کامیابی بتا رہے ہیں۔
یہ آخر ماجرا کیا ہے؟ کیا ربِ کریم نے انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوتا، تو انسان فرشتے تخلیق کیوں کرتا؟ اللہ کریم نے عبادت کاجو نظام ہمیں بخشا ہے، وہ تو ہماری اپنی زندگی کو ایک نظام کے تحت کرنے کے لیے ہے۔ ہماری زندگی کی تنظیم سازی کی وجہ یہ عبادات بادی النظر میں آتی ہیں۔ کیوں کہ اس ذاتِ بابرکت کو تو عبادات ہماری سے غرض ہے نہیں کہ ہماری عبادات کا محتاج اس کا مقام وحدہ لا شریک ہے ہی نہیں۔ ہم ایک بات بھول گئے کہ اُس نے کہا ہے کہ و ہ اپنے حقوق تو معاف فرما دے گا، لیکن بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک بندے خود معافی نہ دیں۔ لیکن ہمارے لیے اس بات کی اہمیت ہی نا رہی۔ ہم آج بھی اس بات کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ ہم نے اس آفت سے چھٹکارے کے لیے بے وقت اذانیں دینی شروع کر دیں، لیکن بے وقت کی اذان کی پکار بلند کرنے کے بعد ہم نے پڑوس سے یہ نہیں پوچھا کہ نظامِ کائنات رُک سا گیا ہے، تو اے بھلے انسان، تمہارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں؟ رات کی تاریکی میں ہم بلند آواز سے اذانیں دینے کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، لیکن ہم نے یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ اللہ نے ہمیں جھٹکا کیا اس لیے دیا کہ ہم صرف بے وقت کی اذانیں دیں؟ وہ ذات تو ہم وقت پہ اذانوں میں بھی کہتی ہے کہ ’’آؤ فلاح کی طرف‘‘ لیکن ہم ناقص العقل نے یہ سوچنا چاہا کہ فلاح ہے کیا؟ انسانیت کی خدمت اور انسان کا دوسرے انسان پہ احسان کرنا اُس کے نزدیک بھی پسندیدہ ہے، لیکن ہم یہ کرنا اب بھی گوارا نہیں کررہے۔ دل ہمارے بغض، عناد، حسد، بخل، جھوٹ، مکر و فریب سے اب بھی بھرے ہوئے ہیں اور ہم بے وقت کی اذان دے کر اپنی ذمہ داری پوری ہو جانا سمجھ رہے ہیں۔
اے حضرتِ انسان! بے وقت کی اذان یا وقت پہ اذان دونوں صورتوں میں اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے ہے، لیکن اللہ کی رضا تو تب حاصل ہوگی نا جب آپ اللہ کی مخلوق کو راضی کر لیں گے تو۔ سجدوں میں سر رکھنے سے پہلے مخلوقِ خدا کے سامنے تو اپنا غرور کم کیجیے، اور خود سے نیچے دیکھنا گوارا کیجیے۔ پیشانی پہ محرابیں سجانے سے قبل ذرا ایک لمحہ اپنے دل کے اندر کی سیاہی کو تو نکال باہر کیجیے۔
ایسا کریں گے حضرتِ انسان! تب ہی آپ کی بے وقت اذانوں میں بھی ایسا اثر و سوز ہو گا کہ قدرت کو آپ پہ رحم آ جائے گا۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔