دُنیا گلوبل ولیج ہے۔ سادہ زبان میں پوچھیے تو دنیا ایک ایسا گاؤں ہے جس میں تمام افراد ایک دوسرے پہ کسی نہ کسی حوالے سے انحصار کرتے ہیں۔ جب ہم لفظ گاؤں استعمال کرتے ہیں، تو اس کو ایسے ہی لیجیے کہ جیسے ایک گاؤں کے اندر مکین نہ صرف ایک دوسرے کو مکمل طور پر جانتے ہیں بلکہ ان کی خوشی و غمی کو اپنی خوشی و غمی سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔ دُنیا کو بھی آپ عالمی گاؤں کہہ لیجیے، لیکن اس عالمی گاؤں کے اصول و ضوابط کو اس گاؤں کے باسیوں نے تھوڑا تبدیل کرناشروع کر دیا۔ ہم نے یہ تصور کر لیا کہ گاؤں کی تنظیم اور بناوٹ کو ہم چیلنج کرسکتے ہیں۔ قصبے، شہر میں آپ کا پڑوسی آپ کے حالات سے بے خبر رہ سکتا ہے، اور آپ اس کو نظر انداز کرکے گزر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے خالصتاً دنیا کو عالمی گاؤں کی اصطلاح دی، تو پھر دنیا کو چاہیے تھا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتی کہ ایک گاؤں کے اندر رہنے والے اپنے لڑائی جھگڑے، اپنی خوشیاں، اپنے دُکھ، اپنی ضروریات کس طرح حاصل کرتے ہیں، نمٹاتے ہیں ، مناتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس حقیقت سے نظریں چرا لیں اور ایک گاؤں کے اندر رہتے ہوئے مختلف وڈیرے منظر عام پہ آگئے۔ ہم نے گاؤں کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا۔ ہم نے دنیا میں اجارہ داری کی ایسی دوڑ شروع کر دی کہ گاؤں کے کمزور مکین ہمارے لیے مشقِ ستم بن گئے، اور ہم اپنی فرضی جیت پہ قہقہے بلند کرنے لگ جاتے، اور دوسرے کی ہار پہ فتح کا جشن منانے لگے۔
کرونا وائرس، کوووڈ نائن ٹین، نول کرونا وائرس 2019ء، اس عالمی گاؤں کے مکینوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ گاؤں کے سبھی مکین خواہش کر رہے ہیں کہ کاش، یہ خواب کبھی تعبیر کا چہرہ نہ دیکھتا۔ لیکن اب اس خواہش کی حسرت صرف حسرت ہی رہے گی کہ اس عالمی گاؤں کی 190 اکائیوں کو یہ ناسور اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ہم نے خود اس گاؤں کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے اسے عالمی گاؤں قرار دیا، لیکن جب ہم نے اپنے اس فیصلے کی خود نفی کرنا شروع کر دی، تو کچھ نہ کچھ ایسا سامنے آنا تھا جس سے ہم کو کم از کم اپنے عمل پہ شرمندگی تو ہو، لیکن قرائن گواہ ہیں کہ ہم ابھی شرمندگی کے معیار تک نہیں پہنچے۔ ہم شائد ابھی کچھ اور لاشیں ڈھونا چاہتے ہیں۔ شائد ابھی ہمارے پاس کفن وافر مقدار میں موجود ہیں۔ آپ ستم دیکھیے کہ ’’ووہان‘‘ میں جب یہ وبا پھیلی، تو ڈاکٹر لی کے خدشات کے باوجود اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا، لیکن جب حقیقت آشکار ہوئی تو کچھ ہوش آیا۔ یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کیوں کہ ایک عالمی گاؤں کی حیثیت رکھتی ہے، تو پوری دنیا اس مشکل کے خلاف صف آرا ہو جاتی، لیکن ہم کیوں کہ گاؤں میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے بجائے اپنی اپنی چوہدراہٹ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم اسے صرف چین اور ڈائمنڈ کروز شپ تک محدود رکھ کے سوچنے لگے۔ مختلف ممالک کے دفترِ خارجہ کے ترجمان بس لگے بندھے انداز میں بیان داغ دیتے۔ عالمی ادارے وارننگ جاری کر دیتے اور بس! چین پوری دنیا میں معاشی جال بچھا چکا ہے، اور اس عالمی گاؤں میں ایسا چوہدری بن کے ابھرا ہے کہ جو اپنی صلاحیتوں سے پوری دنیا میں اپنا سکہ منوا چکا ہے اور معاشی خوشحالی دیکھ چکا ہے۔ یہ لڑتا بھڑتا نہیں ہے، لیکن یہ اپنے کھیسے میں سرمایا ڈالے جا رہا ہے۔ لہٰذا گاؤں کے دیگر افراد اس سے جلن اور بغض کا رویہ دل میں پیدا کر چکے ہیں۔ کیوں کہ کامیابی بھی اپنی دشمن خود ہی ہے۔ چین کی تباہ ہوتی معیشت پہ دیگر گاؤں کے مکین دل ہی دل میں خوش ہوتے رہے۔ امریکہ، یورپی یونین، معاشی میدان میں چین کے مقابل کھڑے ممالک، اپنی جگہ مطمئن دکھائی دینے لگے کہ اب چین جھکے ہی جھکے۔ وہ شائد اپنی دانست میں سخت لب و لہجے پہ مبنی ڈرافٹ بھی تیار کر چکے ہوں گے کہ چین کی امداد کی اپیل پہ ان کا ابتدائی جواب کتنا سخت ہوگا کہ رفتہ رفتہ لہجہ نرم کر کے اسے جھکایا جائے گا، لیکن یہاں ایک حیران کن منظر دیکھنے کو ملا۔ ویڈیوز سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ ہزاروں مشینیں چل رہی ہیں، مٹی کے ڈھیر ہموار ہو رہے ہیں، دن رات کی تمیز کے بغیر کچھ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ پتا چلا یہ تو کرونا وائرس کے لیے تیار کیے جانے والے ہنگامی ہسپتال ہیں۔ ایک ہزار بستروں کے ہسپتال کے بجائے ایسے کئی ہسپتال تیار کر لیے گئے۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد اور شرحِ اموات کو یک دم بریک لگنا شروع ہوگئے اور چین میں صحت یاب ہونے والے افراد بڑھنے لگے۔ گاؤں کے دوسرے وڈیرے جو چوہدراہٹ کی مہر لگنے کی خوشی میں تھے، وہ سنبھلتے چین کو دیکھ کر ہیجان میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ سنبھلتے چین کے ساتھ کھڑے ہوتے اور اس کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے عالمی وبا کے خلاف مل کے کام کرتے، لیکن طنز پہ انحصار کیا گیا۔ نتیجتاً چین اس وبا سے رفتہ رفتہ دور ہوتا گیا۔ اور ایک دن اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ چین میں فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ سڑکوں پہ قد آدم بینر، ڈیجیٹل سکرینیں، جہازی سائز پوسٹر نظر آنے لگے جس میں فتح کے حصہ داروں کی تصاویر شیئر کی گئی تھیں۔ باوردی افواج دوسری باوردی فوج کو سیلوٹ پیش کر رہی تھیں، لیکن دوسری باوردی فوج کی وردی کا رنگ سفید تھا۔ چہرے مسکرانے لگے۔ فتح پہ ملک میں سکون سا آنے لگا، لیکن اسی اثنا میں عالمی گاؤں کی دوسری اکائیاں فتح کا جشن منانے کے بجائے جنازے گننے لگیں۔ چین کی فتح کا جشن اور دنیا میں اُٹھتے جنازے آمنے سامنے آ گئے۔
چین کو اس کے حال پہ چھوڑ دینے سے معاملات اتنے گھمبیر ہوگئے کہ اٹلی میں فوجی ٹرک لاشیں اُٹھانے لگے۔ ہم چین کو جھکانے کی کوششوں میں اتنے مصروف ہوگئے کہ اس حقیقت کا انکار کر دیا کہ آج ہم چین کو تنہا چھوڑ رہے ہیں، تو کل کو ایسے ہی حالات ہمارے ساتھ بھی پیش آ سکتے ہیں۔ یہ کل بہت جلدی آ گیا۔ اٹلی ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور سپین سمیت کوئی ملک ایسا نہ رہا جہاں خوف نے پنجے نا گاڑھ لیے ہوں۔
کتنا عجیب اور افسوس ناک منظر اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ چین میں فتح کے جشن میں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں، اور باقی دنیا میں جنازے اُٹھ رہے ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گریباں چاک کیا ہے۔ ہم نے نام گلوبل ولیج کا دے دیا، لیکن چین کی تباہی کی خواہش کرتے ہوئے وہاں پڑی مشکل پہ خود کو محفوظ سمجھ بیٹھے۔ اب ایسے ہی حالات ایران کے حوالے سے ہیں۔ ایران پہ پابندیاں نرم کرنے کے حوالے سے دنیا کے تمام ممالک اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ انسانیت شائد کہیں دور رہ گئی ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بس نام کی ہے، ورنہ ایسا بھلا کہاں ہوتا ہے کہ گاؤں کا ایک شخص تکلیف میں ہو، بیشک وہ آپ سے ناراض ہی کیوں نہ ہو، آپ اس کی مدد کو دوڑے چلے جاتے ہیں، لیکن یہاں معاملات مختلف ہو چکے ہیں۔
قارئین، ایک گاؤں میں کیا ہوتا ہے؟ مرگ ہو جائے کسی بھی گھر میں تو پورے گاؤں میں افسردگی پھیل جاتی ہے۔ گلیاں، بازار، محلے سوگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ماضیِ قریب میں کسی گاؤں میں فوتگی ہونے پہ اگر کوئی اشیائے ضروریہ کی دوکان کھولتا، تو اس پہ لعن طعن کی جاتی تھی۔ پورا گاؤں مرگ والے گھر پہنچ جاتا تھا اور اس کی مدد کر اپنا فرض سمجھ لیتا تھا۔ جس گھر میں فوتگی ہوتی، اس گھر کے مکین کو معلوم ہی نہیں پڑنے دیا جاتا کہ کہاں سے دیگیں آ رہی ہیں، کہاں سے پانی لایا جا رہا ہے، اور کہاں سے دیگر انتظامات ہو رہے ہیں۔ اگر گاؤں کے انہی اصول و ضوابط کو مد نظر رکھا جائے، تو دنیا نے چین کو تنہا کیوں سمجھا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے؟ کیوں امریکہ نے کرونا وائرس کو ’’چینی وائرس‘‘ کا نام دیا؟ ہماری اکڑ، غرور کیوں ہم پہ حاوی ہو رہا ہے؟ چین نے اس تمام صورتحال کے باوجود ایک قدم آگے بڑھایا اور پوری دنیا کو اپنے تجربات شیئر کرنے کی نوید سنائی، اور امداد کی یقین دہانی بھی کروائی، لیکن دنیا اگر گلوبل ولیج ہے، تو اس ولیج کی تمام اکائیوں کو برابری کی سطح پہ اقدامات تو کرنا ہوں گے۔
اگر واقعی دنیا گلوبل ولیج یعنی عالمی گاؤں کا درجہ رکھتی ہے، تو ہم سب کو اپنے طرزِ عمل پہ غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اس حقیقت کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کیوں دوسرے کی مشکل کو اپنی آسانی سے تعبیر کرنا شروع ہوگئے ہیں؟ آج چین میں فتح کا جشن اگر ہے، تو صرف چین کی ذاتی کاوشوں سے ہے، ہم تو تماشائی بنے رہے۔ اگر آج دنیا میں جنازے اُٹھ رہے ہیں، تو کیا چین کا کردار تماشائی کا ہے؟ بالکل نہیں! چین ہر تعاون کی یقین دہانی کروا چکا ہے، اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔