جب دنیا کی مضبوط ترین معیشت ’’چین‘‘ نے کرونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا، تو تبھی یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اس وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے سوا کوئی مؤثر آپشن موجود نہیں۔
ابھی یہ وائرس پاکستان نہیں آیا تھا۔ حکومت کے معصوم کاندھوں پر صرف اتنا سا بوجھ تھا کہ اسے تمام داخلی راستوں پر کڑی نظر رکھنا تھی۔ سکریننگ اور دیگر ضروی اقدامات میں ذرا بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں رکھنا تھی۔ کیوں کہ تیزی سے پھیلتا یہ وائرس اگر ایک بار اپنے قدم جمالیتا ہے، تو بات سکریننگ اور داخلی راستوں کی کڑی نگرانی سے آگے چلی جاتی ہے۔
لیکن ’’گھبرانا نہیں سر کار‘‘ نے گھبرانے کا نام ہی نہ لیا۔ شروعات سے ہی ایئرپورٹس پر حکومت کے ناقص انتظامات اور غفلت کی خبریں آتی رہیں۔ داخلی راستوں پر ملک میں آنے والے افراد کی چیکنگ میں اتنی کوتاہی برتی گئی کہ گذشتہ روز چیف جسٹس بھی اس پر برہم دکھائی دیے، اور کہا کہ ’’حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کرونا پاکستان آیا۔‘‘
تفتان کے قرنطینہ میں سیکڑوں کی تعداد میں ایران سے آئے زائرین کو نہایت غفلت اور کوتاہی سے رکھا گیا، جہاں احتیاطی تدابیر نامی کوئی شے دکھائی نہ دی۔ اس پر وفاقی حکومت اور اپوزیشن کی لفظی نوک جھونک کے دوران وہ تمام غلطیاں ہوئیں جو نہیں ہونی چاہیے تھیں۔
دوسری طرف حالات بھی ایسے ہیں کہ معاونِ خصوصی برائے صحت ’’ڈاکٹر ظفر مرزا‘‘ پر ماسک سمگلنگ کا الزام ہے۔ وزیراعظم، اجتماعات پر پابندی لگانے اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی تاکید کے بعد ایک اچھے خاصے اجتماع کے ساتھ قرنطینہ جاکر چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر متاثرہ افراد سے بات چیت کر کے ’’لیڈر‘‘ بننے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے قوم سے خطاب میں ’’ہم کچھ نہیں کرسکتے!‘‘ کے علاوہ کوئی بھی تسلی بخش اور حوصلہ افزا خبر سننے کو نہیں ملی۔ متاثرہ افراد کی تعداد (تادمِ تحریر) 456 تک پہنچ چکی ہے۔ اب پانی سر سے گزرنے جا رہا ہے، تو اقدامات میں تیزی آئی ہے۔
ان اقدامات کے باوجود عوام کی جانب سے تعاون اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کا عمل حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔ شومئی قسمت کہ عوامی اجتماعات کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ گذشتہ روز لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون فیملی فنکشن سے واپس گھر پہنچیں، تو ان میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، جس کے بعد خاتون کے اہلِ خانہ کی جانب سے ان تمام افراد کو ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا جن سے خاتون تقریب میں ملی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی ملک بھر کے مختلف علاقوں کے عوام غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، گھروں میں بدستور تقریبات ہورہی ہیں۔
گذارش ہے کہ اب اندرونِ ملک عوام کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی جائے۔ ایسے وقت میں عوام کی نقل و حرکت مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ ہماری معیشت مکمل لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نظامِ صحت ایسا نہیں ہے کہ جس سے خیر کی توقع کی جائے۔ وائرس ایسے ہی تیزی سے پھیلا تو اربوں ڈالرز کی امداد بھی کام نہیں آئے گی۔ کیوں کہ ناقص انتظامی امور کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔