سانحۂ جلیانوالہ باغ کی مختصر کہانی

آزاد اقوام جب اپنی آزادی کے تحفظ سے بے پروا ہوکر باہمی انتشار کا شکار ہوتی ہیں، تو قدرت ان سے آزادی جیسی نعمت چھین کر دوسری اقوام کا غلام بتاتی ہے۔ پھر جب ان اقوام میں آزادی کی تڑپ سر اُٹھاتی ہے، تو تاریخ شاہد ہے کہ آزادی کا حق مانگنے اور چھیننے کی وجہ سے آقاؤں نے غلاموں اور محکوموں پر ہر قسم ظلم و جبر جاری رکھا، لیکن حریت پسندوں نے حصولِ آزادی کی خاطر جان و مال تک کی قربانی ن دی۔ سانحۂ جلیانوالہ باغ بھی تاریخِ حریت کی ایک اہم کڑی ہے، جس کی شہرت کی وجہ انگریزوں کی سفاکی کا ایک خاص واقعہ ہے۔
جلیانوالہ باغ، امرتسر کا ایک باغ تھا جو بعد میں ایک میدان رہ گیا۔ جہاں گاہے گاہے سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوا کرتے تھے۔ یہ جگہ شہر کے وسط میں ہے، اور چاروں طرف مکانوں سے گھری ہوئی ہے۔ جنوری 1919ء میں مرکزی مجلسِ قانون ساز نے ایک بل کا مسودہ منظور کیا جو بعد میں ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت بغیر کوئی مقدمہ چلائے نظر بندی کا قانون بنایا گیا، اور اخبارات کی آزادی سلب کرلی گئی۔ حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے حکام کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ جس کو چاہیں ملک دشمنی کے الزام میں شہر بدر یا گرفتار کرسکتے ہیں۔ ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کے خلاف ہندوستان میں شدید رد عمل ہوا۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے قانون ساز مجلس کی رکنیت سے بہ طورِ احتجاج استعفا دے دیا۔ گاندھی جی نے بھی اس بل کی مذمت کی اور ان کی اپیل پر 6 اپریل 1919ء کو ’’ستیہ گرہ‘‘ بنایا گیا۔ اس بل کے خلاف سارے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے، لیکن بالخصوص پنجاب میں ان کا بڑا زور تھا۔ 10 اپریل کو لاہور میں دوسرکردہ رہنماؤں ’’ڈاکٹر سیف الدین کچلو‘‘ اور ’’ستیہ پال‘‘ کی گرفتاری نے احتجاج کی شدت میں اضافہ کردیا۔
11 اپریل کو حکومت نے فساد اور ہنگامے ختم کرنے کے لیے جلسے اور جلوس قطعاً ممنوع قرار دیے اور ’’جنرل ڈائیر‘‘کو اس کی سرکوبی کا نگران مقرر کیا گیا۔ دو روز بعد 1919ء کو امرتسر کے شہری چار بجے شام کو اپنے رہنماؤں کی اسیری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ 200 گز لمبا اور 100 گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ بلند مقامات تھے۔ باہر نکلنے کے لیے فقط دو راستے تھے، اور دونوں ہی تنگ تھے۔ میدان لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کوئی 20 ہزار افراد اس سبزہ زار میں جمع تھے، اور مقررین کی تقریریں سن رہے تھے۔ ’’جنرل ڈائیر‘‘ 50 انگریز اور 100 ہندوستان سپاہیوں کے ہمراہ جو رائفلوں، سنگینوں اور مشین گنوں سے لیس تھے، باغ میں داخل ہوا اور عوام کی اس نافرمانی پر آگ بگولا ہوا۔ جنرل ڈائیر نے بغیر کسی انتباہ کے تنگ گزرگاہ کی جانب نہتے عوام پر مشین گنوں کے دھانے کھول دیے اور جب تک کارتوس ختم نہیں ہوئے، یہ فائرنگ جاری رہی۔ خود انگریز مؤرخین کے مطابق 739 افراد ہلاک اور 208 زخمی ہوئے۔ ’’ڈائیر‘‘ کی سنگ دلی کی انتہا یہ تھی کہ زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا۔ اس حادثے نے سارے پنجاب میں آگ لگا دی، اور دو دن بعد پورے پنجاب میں ’’مارشل لا‘‘ نافذ کردیا گیا۔
آزادیِ ہند کے بعد جلیانوالہ باغ میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں ایک مینار تعمیر کیا گیا، جو اُن بے گناہ لوگوں کی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔