سنا ہے احمد ندیم قاسمیؔ جو اُن دنوں ’’نقوش‘‘ رسالہ ایڈٹ کرتے تھے۔ ایک بار منٹو ان کے دفتر پہنچے اور شراب کے لیے ادھار چاہا: ’’ایک پندرہ روپیہ دیجیے، شراب لینی ہے۔‘‘
اس بات میں ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے منٹو کا۔ جانے سے پہلے وہ بھی جانتے تھے کہ ندیم صاحب اُسے شراب کے لیے پیسے نہیں دیں گے۔ لیکن ایک شرارت، ایک شوخی، ایک چھیڑ بھی منٹو ہی کا حصہ تھا۔ وہی ہوا۔ قاسمی صاحب نے کہہ دیا: ’’منٹو، مَیں تمہیں افسانے کے لیے پیسے دے سکتا ہوں، لیکن شراب کے لیے نہیں دوں گا۔‘‘
منٹو اُٹھ کر چلے گئے اور ایک گھنٹے کے بعد نیا افسانہ لے کر (بقولِ قاسمیؔ صاحب) پھر آدھمکے۔ قاسمیؔ صاحب نے پندرہ روپے دیے، تو منٹو بولے: ’’شراب بے شک مہنگی ہے، لیکن افسانہ بھی اتنا سستا نہیں ہے، ندیم بھائی……!‘‘
بالآخر 30 روپے لے کر اٹھے اور کہہ گئے: ’’بقایا چَھپنے پر!‘‘
(’’گر یاد رہے‘‘ از گلزارؔ، مطبوعہ ’’بُک کارنر‘‘، اشاعت، مئی 2019ء، صفحہ 24 سے انتخاب)
