لوگ کبھی کہتے ہیں کہ شاعر قوم کی آنکھ ہوتے ہیں۔ کوئی صحافی کو یہ رُتبہ عطا کرتا ہے، بلکہ آنکھ کے ساتھ کان بھی اس کے نام کیے جاتے ہیں۔ یہ باتیں ممکن ہیں درست ہوں، مگر جو وجدان ایک مؤرخ رکھتا ہے، جو رواں حالات میں چھپے وہ اشارے دیکھتا ہے اور آنے والے واقعات اور حادثات کی جو منظر کشی مؤرخ کرسکتا ہے، وہ نہ کسی شاعر کے ذہن میں آسکتے ہیں اور نہ صحافی، یا کوئی نام نہاد تجزیہ نگار ان اندیشہ ہائے دور و دراز کا ادراک کرسکتا ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں سوات میں ایک ایسے مؤرخ کے تجربات اور مشاہدات کتابی صورت میں دستیاب ہیں جن کا علم وسیع اور حقیقت پسندانہ منظر کشی اور تجزیاتی مہارت اظہر من الشمس ہیں۔ ڈاکٹر سلطان روم کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ موصوف کی علمیت کی اِک دُنیا معترف ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُن کی نگارشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور تاریخ کے شعبے میں ایک قد آور اور معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ان کی 3 انگریزی کتابیں اکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہیں، اور دو پشتو اور ایک اُردو کتاب سوات کے ممتاز اشاعتی ادارے ’’شعیب سنز پبلشرز مینگورہ‘‘ نے قارئین کے لیے نہایت خوبصورت پیرائے میں شائع کی ہیں۔ پشتو کی ایک کتاب ’’متلونہ‘‘ مادری زبان میں صدیوں سے مروجہ محاورات اور روزمرہ پر مشتمل ہے۔ دوسری کتاب ’’ٹپے‘‘ پشتو زبان کی عوامی صنف پر مشتمل ہے۔ دونوں کتابوں کے مواد کے لیے موصوف نے کتنے پاپڑ بیلے ہوں گے، یہ تو ان کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے۔
اُن کی حالیہ کتاب ’’سوات تاریخ کے دوراہے پر‘‘ ایک منفرد اور قومی اہمیت کے حامل مضامین پر مشتمل ہے۔ مصنف نے جس دل سوزی اور عرق ریزی سے یہ کتاب تحریر کی ہے، اس کی داد نہ دینا کم ظرفی ہوگی۔
کتاب میں فاضل مؤرخ کے چند شائع شدہ کالم بہ شمول چند اضافی نگارشات کے، شامل ہیں۔ ایک انٹرویو بھی طویل مکالمے کی صورت کتاب کے آخر میں درج ہے۔
اس کتاب کے بعض مضامین اتنے چشم کشا اور واضح پیغامات کے حامل ہیں کہ بین السطور میں چھپے ان اشاروں سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کتاب کو آپ پورا پڑھ لیں، تو آپ کو کتاب کے عنوان کی صداقت کا ادراک ہوجائے گا، اور آپ یہ تسلیم کریں گے کہ اس وقت سوات واقعی تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اہلِ سوات کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اُن کو کس طرف جانا ہے؟ آنے والے طوفان کا رُخ موڑنا ہے، یا حالات کے رو میں بہہ جانا ہے۔ مصنف نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ روزمرہ کے معمولی حادثات سے آئندہ کے بڑے واقعات کا اندیشہ بڑھتا جاتا ہے۔ میرے خیال میں سوات کے دانشور طبقے کو اس کتاب کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کے لیے آگے آنا چاہیے۔ سوات کے واحد شہر مینگورہ میں باشعور اہلِ قلم اور انٹلیکچولز کی کمی نہیں۔ ان کو مناسب فورم بھی حاصل ہے، تو جو خود کو دانشور سمجھتے ہیں، یا واقعی وہ لوگ دانشمند ہیں، اُن کو چاہیے کہ آگے آئیں۔ ان موضوعات پر جن کی نشان دہی ڈاکٹر صاحب نے فرمائی ہے، ان پر سیمینار منعقد کروائیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر عوام کی آگاہی کے لیے اقدامات کریں، تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہو اور وہ آئے دن کے واقعات کی روشنی میں مستقبل کی پیش بندی کرسکیں۔
ڈاکٹر صاحب کے بعض خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کی سوات سے محبت اور سواتی عوام کے لیے بہتر مستقبل کی خواہش اور سچائی سے انکار ممکن نہیں۔
ڈاکٹر صاحب چوں کہ اب جہاں زیب کالج کے شعبۂ تاریخ کی صدارت سے سبک دوش ہوچکے ہیں، اور اُن کو اب زیادہ وقت میسر ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے سواتی عوام کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صحت و توانائی بخشے، اور ہمیں اُن کی نگارشات سے مستفید ہونے کا موقع تادیر حاصل رہے۔
کتاب کے وہ ابواب جو سوات کے ماضیِ قریب میں پیش آمدہ لرزہ خیز واقعات، ان کے پس منظر اور آئندہ کے امکانات کے بارے میں ہیں، گہرے مطالعہ اور غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے اخذ کردہ تجزیہ کی روشنی میں سواتی عوام کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ہر پڑھے لکھے سواتی کو یہ کتاب (سوات تاریخ کے دوراہے پر) پڑھنی چاہیے اور ہر لائبریری میں اس کے رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔