مولوی محمد حسین آزاد اواخرِ عمر میں ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ ایک دن اپنے گھر سے غائب ہوگئے۔ پہلے لاہور میں انہیں تلاش کیا گیا۔ پھر اور شہروں میں، مگر ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔ کئی مہینے غائب رہنے کے بعد وہ ایکا ایکی دلی میں رونما ہوئے۔ بریاں لگی ہوئیں، ننگے پاؤں، ننگے سر، پیروں میں چھالے، منھ پر خاک، چہرے پر وحشت، لال لال دیدے، سیدھے منشی ذکاء اللہ کے مکان میں گھس آئے۔ منشی ذکاء اللہ سے ان کا بچپن کا یارانہ تھا۔ وہ انہیں اس جنون کی کیفیت میں دیکھ کر لرز گئے۔ فوراً ان کے کپڑے بدلوائے۔ منھ ہاتھ دھلوایا۔ معلوم ہوا کہ لاہور سے پیدل چلے تھے اور خدا جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے دلی پیدل ہی پہنچ گئے۔
ایک دن مولوی نذیر احمد منشی ذکاء اللہ کے ہاں پہنچے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا آزاد ایک مونڈھے پر بیٹھے ہیں، اور دوسرے مونڈھے پر منشی ذکاء اللہ بیٹھے نائی سے حجامت بنوا رہے ہیں۔ نجانے مولانا آزاد کو کیا خیال آیا کہ اُٹھے اور نائی کے ہاتھ سے اُسترا چھین لیا اور بولے: ’’ابے، تو کیا حجامت بنائے گا۔ ہم بنائیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر منشی ذکاء اللہ کا گلا بنانے لگے اور سارا خط بھی بنا ڈالا۔ مولوی نذیر احمد نے بعد میں منشی جی سے کہا: ’’اماں، تم نے غضب کیا کہ اس جنونی کے آگے اپنا گلا کردیا اور جو وہ اُڑا دیتا؟‘‘ منشی ذکاء اللہ نے کہا: ’’نہیں، آزاد تو ہمارا دوست ہے۔ ہمارا گلا نہیں کاٹ سکتا۔‘‘
(انتخاب از ’’شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے ‘‘، مرتبہ ’’حکیم اعجاز حسین چانڈیو‘‘، ناشر گگن شاہد، امر شاہد،بُک کارنر، سنہ اشاعت، 2017ء، صفحہ نمبر 22 سے انتخاب)