چینی قوم چائینہ میں آباد ہے۔ ایرانی سرزمین پر ایرانی قوم متمکن ہے۔ انگریز ہی انگلستان کے خشکی و تری کے مالک و مختار ہیں اور فرانس کے آشیانوں میں فرانسیسی ہی گوشہ نشین ہیں، لیکن پاکستان کے طول وعرض میں سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون قومیں رہتی ہیں۔ براہِ کرم آپ یہ جاننے کی زحمت نہ کریں کہ پاکستانی قوم کہاں رہتی ہے؟ آپ کون سا مطالعۂ پاکستان کا پرچہ دینے بیٹھے ہیں؟
پاکستان میں شیعہ سنی کے بعد ’’مَیں دیو بندی ہوں‘‘ اور’’مَیں بریلوی ہوں‘‘ کے نعرے لگائیں جاتے ہیں، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ دیوبند اور بریلی تو ہندوستان کے شہر ہیں۔ کیوں کہ کون یہاں کسی کا شناختی کارڈ چیک کرتا ہے۔
یہ سراسر الزام ہے کہ پاکستان میں مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا۔ مینڈیٹ ہی کا احترام کرتے ہوئے ہم نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا تھا، اور بنگالیوں پر یہ احسان الگ کیا تھا کہ انہیں شہادت جیسے عظیم منصب پر فائز ہونے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان میں پارلیمنٹ تب بالادست ہوتی ہے جب صدارتی کرسی پر ضیاء الحق یا پرویز مشرف جیسے……براجمان ہوں، ورنہ جمہوریت میں تو اکثر اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں، یا وزرائے اعظم عدالتوں کے ذریعے گھر بھیجے گئے ہیں۔
میدانِ سیاست ’’پاکستان‘‘ میں میدانِ جنگ سے زیادہ خوں ریز ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ انڈیا سے لڑی گئی جنگوں میں آج تک ایک بھی جرنیل شہید نہیں ہوا، اور میدانِ سیاست میں تو بہت سارے سیاست دان اور قومی لیڈر شہادت کا جام نوش کر چکے ہیں۔
بھئی، ہم مان گئے کہ اب پاکستان میں عدالت کے فیصلے پر برملا تنقید کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا، کیوں کہ مشرف کے خلاف فیصلہ آنے پر ریاستی اداروں نے کھل کر فیصلے کی مخالفت کی، لیکن کسی کو توہینِ عدالت کا نوٹس نہیں ملا۔
عزیزانِ من، آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے بے ربط اور طنزو مِزاح سے بھرپور جملوں سے آج ملک صاحب کی تحریر کا موضوعِ بحث کیا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ آج بندۂ ناچیز، حقیر، فقیر، پُرتقصیر ایک مرتبہ پھر عالی جناب عمران احمد خان نیازی کی نام نہاد حکومت پر تجزیہ کرنے کی جسارت کرنے جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ لگ بھگ ڈیڑھ سال سے جنابِ نیازی نشے کی حالت میں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یہاں نشے سے میری مراد طاقت کا وہ نشہ ہے جو ریاستی ادارے انہیں فراہم کر رہے ہیں۔ ملک میں موجودہ بگاڑ کی وجہ جنابِ نیازی کی وہ اصلاحی اقدامات ہیں، جو خالص ملک و قوم کی خاطر کیے گئے۔ جن میں سب سے پہلے وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں کو بھینسوں کے خالص دودھ سے محروم کرکے بازار کا تازہ دودھ فراہم کرنے کے لیے بھینسوں کو اس قیمت پر فروخت کیا گیا جس کی دگنی رقم اس خبر کی تشہیر پر خرچ کی گئی۔ نشے کی حالت میں کیے گئے اصلاحی اقدامات کے سلسلے میں جنابِ نیازی نے بے جا ٹیکس بڑھا کر ملک کی تمام صنعتوں بشمول رئیل اسٹیٹ کو منجمد کردیا، اور عوام کو انڈوں، مرغیوں اور کھٹوں جیسی نئی ’’صنعتوں‘‘ کے میدان میں گھوڑے دوڑانے کی ترغیب دی گئی۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور آج کل گھروں میں آرام سے بیٹھے دو وقت کا کھانا کم کرکے ایک وقت کرنے پر غور کررہے ہیں۔
طاقت کے نشے سے سرشار جنابِ نیازی نے تخت نشینی کے بعد ملک کی باگ ڈور دوسری جماعتوں کے بھگوڑوں اور اپنے نااہل ہم نشینوں کے حوالے کرکے خود بنفس نفیس اپنے سیاسی مخالفین کے تعاقب میں میدان میں نکلے، اور عارضی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے مخالفین کو اسیر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس پر بے وقوف عوام نے پچھلی حکومت کے دیے ہوئے نوالے کو منھ میں چباتے ہوئے ’’جندہ باد!‘‘ کا نعرہ لگایا۔
سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے بعد جنابِ نیازی نے جب اپنے حواریوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا، تو سب سے زیادہ ناگفتہ بہ حالت وزارت خزانہ کی تھی۔ حالاں کہ اس منصب پر اس نے وقت کے سقراط و بقراط پلس جنابِ اسد عمر کو فائز کیا تھا۔ جنابِ نیازی کی نظر میں اسد عمر ہی وہ ناخدا تھا جو ملک کی معیشت کی کشتی کو پار لگا سکتا تھا، لیکن مواخذہ کرنے پر اسد عمر نے داستان کچھ یوں بیان فرمائی کہ جنابِ نیازی آپ نے تخت نشینی کے فوراً بعد تلوار بے نیام کرکے جنگ کا علم بلند کیا جو آپ کا کام نہیں تھا۔ مجبوراً پہرہ دارہی کو خزانہ کی رکھوالی کرنا پڑی۔ بہرحال جیسا لکھنے والوں نے لکھا تھا بالکل اسی سکرپٹ کے مطابق جنابِ اسد عمر کو ہٹا کر پرانے جادوگر جنابِ حفیظ شیخ کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سپرد کیا گیا۔ یہی جنابِ نیازی کی ہار کی ابتدا تھی۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے در پر فقیر نیاز لینے گیا، لیکن نیازی نے اب تک خودکشی نہیں کی۔
جنابِ نیازی کی زباں پر ’’گھبرانا نہیں‘‘ اور ’’مَیں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ جیسے کلمات کا ورد تسلسل کے ساتھ جاری ہے لیکن پھر بھی بے روزگاری، مہنگائی اور بدامنی جیسی بلاؤں کا نزول ختم نہیں ہورہا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عالی جناب کے وزرا یکسوئی کے ساتھ شاملِ ورد نہیں ہیں۔
جنابِ نیازی کی حکومت میں ٹماٹر کا فقدان آیا تو اس پر وزرا نے سنجیدگی سے غور و فکر کرکے اور اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دہی کو ٹماٹر کا متبادل قرار دے کر امت پر احسانِ عظیم فرمایا۔ جب کبھی عوام کو آٹے کے مصنوعی بحران سے سابقہ ہوا، تو سلطنتِ نیازیہ کے اہلِ منطق نے اس بحران کا ناقابلِ یقین حل نکالا اور عوام کو دو کے بجائے ایک اور ایک کے بجائے آدھی روٹی کھانے کا زبردست منطق پڑھایا۔
عزیزانِ من،اگر آپ کو اب ان کی قابلیت میں شک ہے تو ازراہِ تفنن ان کے وہ کارنامے ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے عوام کا پیسا بچانے کی خاطر انجام دیے ہیں۔ وہ یہ کہ جس حساب سے انہوں نے گندم افغانستان کو فروخت کیا اس سے کئی گنا مہنگی قیمت پر خرید کر اب اپنے عوام کو پیش کریں گے۔ اور عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے بجائے اس کے کہ مہنگائی کی وجہ جان کر اس کا سد باب کریں، یہ اشیائے خور و نوش پر سبسڈی دے کر خزانے پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں، تاکہ جلدی سے یہ ملک دیوالیہ ہو جائے۔
پچھلے دس سالوں میں ملک جتنا مقروض ہوا اس سے زیادہ تو آپ نے ڈیڑھ سال میں مقروض کردیا۔ جنابِ نیازی، قوم کی لوٹی ہوئی دولت جن سے وصول کرنا تھی، وہ تو جیلوں سے چھوٹ گئے۔ کیا ان سے کچھ وصول ہوا؟ اور وہ جو آپ کا دعویٰ تھا کہ روزانہ اربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے، اب تو نہیں ہورہی۔ ذرا بتائیں کہ وہ پیسے کہاں ہیں؟ ٹیکسوں میں اضافہ کے اور آئی ایم ایف سے آپ نے جو قرضہ لیا ہے، ان پیسوں سے بتائیں آپ نے کہاں پل بنایا، کہاں سڑکیں تعمیر کیں اور کہاں ہسپتال، کالج یا یونیورسٹی کی بنیاد رکھی؟ جنابِ نیازی آپ کب تک عوام کو یہ باور کرائیں گے کہ ’’یہاں چور ہے، وہاں چور ہے!‘‘ بھئی، 45 فیصد شوگر ملیں تو آپ کے خسرو اور ترین کی ہیں۔ بتائیں پھر کیسے چینی 45 روپے سے 80 روپے کلو تک پہنچ گئی؟ اگر واقعی آپ کی صفوں میں چور نہیں، تو پھر آپ کی حکومت پشاور بی آر ٹی کی تحقیقات میں کیوں رکاوٹ بن رہی ہے؟ اگر آپ چور نہیں، تو آپ کی حکومت فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے کیوں خوفزدہ ہے؟
عزیزانِ من، مَیں بھی ازراہِ تفنن ’’آپ کی حکومت‘‘، ’’آپ کی حکومت‘‘ کہہ رہا ہوں۔ ورنہ اس بے چارے کی حکومت کہاں ہے؟ حکومت تو اس کی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں ساری وزارتیں ہوں، مثلاً آپ وزارتِ خزانہ کو لیجیے جو حفیظ شیخ کے پاس ہے جسے کرائے پہ رکھا گیا ہے۔ اگر آپ وزارتِ داخلہ کی بات کریں، تو وہ اعجاز شاہ کے کنٹرول میں ہے، جو ریٹائر فوجی ہیں پی ٹی آئی کا رکن نہیں۔ قانون کی وزارت ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کے پاس ہے، اور وزارتِ ریلوے کا بیڑا شیخ رشید کے ہاتھوں غرق ہو رہا ہے۔ اہم وزارتوں میں سے وزارتِ خارجہ آپ کے پاس ہے، اس کی بھی سرگذشت کچھ یوں ہے کہ کشمیر آپ کے ہاتھوں سے نکل چکا، آپ ایران اور سعودی عرب کی 14 سو سالہ دشمنی کو دوستی میں بدلنے کاخواب دیکھ رہے ہیں۔
عزیزانِ من، مَیں نے ایک روح فرسا حقیقت آپ کے گوش گزار کی ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے عمران نیازی نشے کی حالت میں اقتدار کی گاڑی چلا رہے ہیں، اور اس کے پرائے اور کرائے کے وزیر دیمک کی طرح اس ملک کی بنیادوں کو چاٹ کر کھوکھلا کرچکے ہیں۔ اگر اس فتنہ کا بروقت اور فی الفور کا راستہ نہ روکا گیا، تو یہ سلیکٹیڈ حکمران پے در پے ہماری گردنوں میں آئی ایم ایف کے طوق ڈالتا رہے گا اور ہمیں محکوم بناتا رہے گا۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔