پاکستان میں بطورِ مجموعی حالات تسلی بخش نہیں ہیں، لیکن میڈیا انڈسٹری بطورِ خاص جبر کا شکار ہے، بلکہ جبر کے بجائے اسے ظلم کہا جائے، تو غلط نہیں ہے۔ ظلم اس لیے کہ ہم نے 90 کی دہائی کے بعد ایک دم سے پورے ملک میں میڈیا کے شعبے میں انقلاب لے آنے کے نعرے بلند کیے۔ اس دوران میں بہت سے نئے اخبارات شائع ہونا شروع ہوئے۔ کئی نئے ٹی وی چینلز شروع کیے گئے، اور ایک اخبار یا ایک ٹی وی چینل کے بجائے میڈیا گروپس بننا شروع ہوگئے، جن میں پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل سمیت ایک ایک گروپ کی ملکیت میں کئی کئی چینل آنا شروع ہو گئے۔ اور ہم نے نہ صرف نعرے لگائے بلکہ یہ بھی مان لیا کہ ملک میں ’’میڈیا انڈسٹری‘‘ میں ایک ایسا ملازمتوں کا سیلاب آ گیا ہے کہ اب ملک میں کوئی بے روزگار نہیں بچے گا۔ تعلیمی اداروں نے میڈیا سٹڈیز کے نام پہ ایک شور بلند کر دیا۔ جیسے کسی دور میں لوگ ’’بزنس ایڈمنسٹریشن‘‘ پڑھتے تھے، بالکل ویسے ہی 90 کی دہائی کے بعد لوگ میڈیا سٹڈیز کی طرف دوڑے چلے آئے۔ جس طرح پاکستان میں ایک روش ہے کہ ہم قابل اذہان کے بجائے ڈگری ہولڈرز پیدا کرتے ہیں، تو اس شعبے میں بھی ہم نے ایسا ہی کیا۔ نتیجتاً میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ ہوگئے ملازمتیں کم ہو گئیں۔
90 کی دہائی گزری۔ 2005ء تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا انڈسٹری پلی پھولی لیکن اس کے بعد اس انڈسٹری کا حال بھی ملک کی باقی انڈسٹریز کی طرح ہونا شروع ہو گیا۔ یہاں ہم سے ایک غلطی تو یہ ہوئی کہ ہم نے اطلاعات، معلومات، تفریح کے ذریعے کو صنعت کا درجہ دے دیا۔ جب کہ ہم جانتے تھے کہ افرادی قوت پہ انحصار جب ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جائے گا، اور جدیدیت کے اس دور میں کمزور اداروں کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے، تو کیسی صنعت، کیسے مزدور؟ اور جب ہم اسے صنعت کا درجہ دیتے ہیں، تو منافع تو صنعتکار ہرگز نہیں چاہے گا کہ مزدوروں تک بھی اسی شرح سے پہنچے جس طرح وہ خود حاصل کر رہا ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ میڈیا مالکان جو سامنے آئے، وہ ٹھیٹھ صنعتکار اور سیٹھ سامنے آئے۔ بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے، لیکن ذرا سوچیے صحافت کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، جو صحافی تھے ہی نہیں۔ تو وہ صحافیوں کے مسائل بھلا سمجھتے کیسے؟ میڈیا مالکان، میڈیا سیٹھ، میڈیائی صنعتکار اپنی مرضی چلانے لگے۔ یہ ان کا کاروبار تھا، صحافت تو تھی نہیں ان کے لیے۔ وہ اس کو نفع بخش بنانے کے طریقے ڈھونڈنے لگے اور ان طریقوں کے درمیان صحافی کا استحصال شروع ہوگیا۔ استحصال ایسے کہ جو سہانے سپنے دکھا کر اصلی صحافی کو توقعات اور امیدوں کے مینار بنانے پہ مجبور کیا گیا تھا، وہ دھڑام سے اس لیے گرنا شروع ہوگئے کہ اصلی صحافیوں کی جگہ صحافت سے نابلد افراد صحافت کرنے لگے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اینٹوں کے بھٹے پہ کام کرنے والے مزدور کو آپ دفتری کام پہ لگا دیں، یا جس نے ساری زندگی دفتر میں فائلیں درست کرتے ہوئے گزار دی ہو، آپ اُس سے کہیں کہ سڑکوں پہ روڑی کوٹنا شروع کر دو۔
مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تجربہ کار صحافیوں کی جگہ نمود و نمائش کا سہارا لیے نو دولتیے اور میڈیا کو کما کے دینے والے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اخبارات اور چینلز اپنے بیوروز بیچنا شروع ہوگئے۔ ’’خود بھی کھاؤ، ہمیں بھی کھلاؤ‘‘ پہ عمل کیا جانے لگا۔ ایک چینل کے دفتر سے لوگوں کو بلیک میل کیا جانے لگا۔ شو مئی قسمت کہ ایک مرتبہ انہوں نے بلیک میل ذرا پڑھے لکھے بندے کو کر دیا۔ اُس نے خاموشی سے قانونی محاذ پہ آتے ہوئے ان کو قانون کی گرفت میں لاکھڑا کیا، تو معلوم ہوا کہ یہ دفتر تو چینل نے اس لیے بنانے دیا اپنے نام اور لوگو کے ساتھ کہ اس کا خرچ یہاں کام کرنے والے خود چلائیں گے ،اور چینل کو بھی کچھ نہ کچھ دیں گے۔
قارئین، آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، تو آپ کو اکثر و بیشتر اخبارات اور چینلز کے قائم دفاتر میں ایسی ہی صورتِ حال نظر آئے گی، جہاں صحافیوں کے بجائے جگے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کے پاس پیسہ ہے، تو چینل آپ کو خوشی سے اپنا لوگو مائیک استعمال کرنے کی اجازت دے دے گا۔ پیسہ نہیں، تو آپ نے صحافت میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہو، تو امید نہ رکھیے گا۔
اصل صحافی، صحافت کو کاروبار نہ سمجھتا تھا نہ کر سکتا تھا۔ لہٰذاحقیقی صحافیوں پہ میڈیا سیٹھ کے ظلم کا چابُک مزید چلنا شروع ہو گیا کہ آئے دن ڈاؤن سائزنگ کے نام پہ صحافیوں کو نکالا جانے لگا۔ دکھانے کے لیے چینلز تک بند کیے جانے لگے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چینل بند ہونے کا ذمہ دار صحافی ہرگز نہیں، بلکہ اس کا کام تو صحافت کرنا تھا جو اُس نے کیا۔ چینل یا اخبار بند میڈیا سیٹھ نے کیا۔ کیوں کہ یہ اس کا کاروبار ہے، اور میڈیا کے کاروبار میں مندی آتے ہی انہوں نے نہ صرف صحافیوں کو جبری برخاستگی کے پروانے تھمائے بلکہ پورے کے پورے ادارے بند کرنا شروع کر دیے۔ یہاں ملکی ریگولیٹری ادارے ستو پی کر سوتے رہے۔ کیوں کہ ملازمین کا تحفظ ادارے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی ذمہ داری تھی۔ کیوں کہ جب آپ نے صنعت کا درجہ میڈیا کو دیا، تو اس صنعت میں نفع نقصان سے مزدور کے متاثر ہونے کو دیکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی، اور یہ دیکھنا لازم تھا کہ اگر سیٹھ نے ملازمین کو نکالا ہے، تو کیا واقعی وجہ کاروبار میں نقصان ہے، یا کچھ اور؟ میڈیا مندی کا شکار ہوا، سیٹھ نے پیسہ نکالا، دوسری جگہ سرمایہ کاری کر دی۔ اُس کے لیے تو یہ صحافت تھی ہی نہیں کاروبار تھا، صحافت تو صحافی نے کی۔ اور ایسی صحافت کی کہ ذہنی مریض بن گیا۔ میڈیا سیٹھ نے بھی ظلم کا چابُک چلایا، کھمبیوں کی طرح اُگنے والی صحافتی تنظیموں نے مفادات کی دھول میں صحافی کا خیال نہ رکھا، اور حکومتِ وقت نے بے حسی سے صحافی سے منھ پھیر لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحافی ذہنی کرب کے ہاتھوں مرنے لگے اور ’’فیاض علی‘‘ بھی مرگیا۔ نجی ٹی وی کا کیمرہ مین فیاض علی میڈیا سیٹھ کے ظلم کا چابُک نہ سہ سکا۔ شنید ہے کہ 6 ماہ سے رُکی تنخواہوں اور پھر پروانۂ برخاستگی نے اس عملی میدان میں کیمرے کے ساتھ جوہر دکھاتے فیاض علی کی جان لے لی۔
چھے ماہ بھی کم کر دیجیے، اگر ایک ماہ کی تنخواہ بھی مڈل کلاس طبقہ کی رُک جائے، تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔ یہ تو پھر چھے ماہ تھے، اور اوپر سے برخاستگی! فیاض علی کا دل اتنا مضبوط نہیں تھا کہ میڈیا سیٹھ کا چابُک سہہ جاتا۔ نتیجتاً کرب، تکلیف، افسوس، پریشانی کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوئے اس کے دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔ اب کیا کوئی یہ سوال کرنا چاہے گا، یا پوچھنے کی ہمت اس سیٹھ سے کرے گا کہ بھئی، تم نے ایک مزدور کی جان لے لی (کیا ذہنی کرب کا شکار کر کے کسی کو موت کی وادی میں دھکیل دینا طبی موت ہے؟) پیسے کی وجہ سے کہ تنخواہ روک لی، تو جب تم نے تنخواہ ملازمین کی روکی، تو یہ بندش تم پہ بھی نافذ ہوئی، یا تم منافع کماتے رہے اور مزدوروں کی محنت کی کمائی روکے رکھی۔ اگر تو سیٹھ جی بھی ایسے ہی کرب کا شکار ہوئے، تو چلیے فیاض علی کی موت طبی مان لیتے ہیں، لیکن اگر سیٹھ جی مزے لیتے رہے، معاشرہ میں امرا و رؤسا کے سنگ نغمے گاتے رہے سکھ چین کے، تو پھر فیاض علی کی موت کیسے طبی ہوگئی؟ اسے قتل کیوں نہ کہا جائے کہ فیاض علی کی امیدوں کا قتل کرنے میں یہ سب میڈیا سیٹھ شامل ہیں۔ اسے قتل کیوں نہ کہا جائے کہ فیاض علی جیسے ہزاروں مزدوروں کو ذہنی کرب میں مبتلا رکھنے کی وجہ یہ میڈیا کے ظالم سیٹھ ہیں۔ اسے قتل کیوں نہ شمار کیا جائے کہ فیاض علی نے تو صرف صحافت کی، وہ مرا اس لیے کے اسے صحافت کے علاوہ کچھ آتا نہیں تھا۔ میڈیا سیٹھ نے بھی اگر صرف صحافت کی ہے، تو قصور اس کا بھی نہیں، لیکن اگر میڈیا سیٹھ اپنے کروڑوں روپے دوسرے کاروبار میں انویسٹ کرکے منافع کما رہا ہے، تو اس کا گریباں کون پکڑے گا کہ تم نے میڈیا کی صنعت سے ہی نکال کے دوسری جگہ سرمایہ کاری کی ہے، تو ظلم صرف مزدور صحافی پہ کیوں؟
ہم سوال کرنے کی جرأت کھوتے جا رہے۔ اس لیے ہی ہمیں جواب دینے والے جواب دینے کے بجائے ہم پہ ظلم کا چابُک برسائے جا رہے ہیں۔ ہم ایک کا مرنا صرف ایک کا مرنا سمجھ بیٹھے ہیں، اسی لیے ہمیں فیاض علی کا جانا جھنجھوڑ نہیں پا رہا۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ میڈیا سیٹھ ایک صحافی پہ نہیں صحافت پہ چابُک برسا رہا ہے، اور ہم دوسرے کے مرنے پہ سیٹھ سے سوال کرنے کے بجائے دو مذمتی بیانات، ایک آدھ تعزیتی ریفرنس یا چند میڈیا بیانات سے آگے بڑھنا گوارا نہیں کر رہے۔ آج ہم بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، اور زندہ ہیں۔ کل کو ہم پہ یہ چابُک برسا اور ہماری سانسوں نے دغا کر دی، تو ہمارا تو لاشہ بھی شرمندگی سے اپنے اوپرہونے والے ظلم پہ سوال کر نہیں سکے گا، نہ گلہ کہ ہم بھی تو چپ بیٹھے رہے تھے۔
اس کسمپرسی کے دور میں سلام ہے ایسے میڈیا کے اداروں کو، جو وقت پہ مزدور کی اجرت ادا کر رہے ہیں۔ سلام ہے ان میڈیا مالکان کو، جو اپنے نفع نقصان میں مزدور کو بھی حصہ دار بنائے ہوئے ہیں۔ اور سلام ہے ایسے اداروں کی انتظامیہ کو، جو پہلی تاریخ کو ہی صحافیوں کو ان کی صحافت دلجمعی سے کرنے کی اجرت دینے کی ابتدا کر دیتے ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔