مولانا محمد حسین آزاد ’’آبِ حیات‘‘ میں میر تقی میرؔ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’لکھنؤ میں پہنچ کر، جیسا مسافروں کا دستور ہے، ایک سرا میں اُترے۔ معلوام ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اُسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔ جب داخلِ محفل ہوئے، تو وہ شہر لکھنؤ، نئے انداز، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ میر ؔ صاحب بے چارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے، اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہ کر غزلِ طرحی میں داخل کیا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دِلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے
سب کو معلوم ہوا بہت معذرت کی۔‘‘
(’’اردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں‘‘ از (تحقیق و تالیف) محمد شمس الحق، مطبوعہ ’’فکشن ہاؤس‘‘، اشاعت چہارم 2020ء، صفحہ نمبر 159 سے انتخاب)