جھگڑے کی جڑ کو ختم کرنا چاہیے۔ جب اصل چیز ہی نہ ہوگی، تو جھگڑا کیوں ہوگا؟
یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کسی جھگڑے یا مسئلے سے نجات حاصل کرنے کے لیے بنیاد ہی کا مٹا دینا ضروری ہو۔ اس کہاوت کے پس منظر میں ایک دلچسپ لوک کہانی اس طرح مشہور ہے: ’’کسی گاؤں کے لوگوں نے نہ کبھی کوئی بانسری دیکھی تھی اور نہ بانسری کی آواز سنی تھی۔ اتفاق سے اس گاؤں میں ایک شخص بانسری لے کر پہنچا اور ایک سایہ دار درخت کے نیچے کھڑا ہوکر بانسری بجانے لگا۔ گاؤں کے لوگوں نے جب بانسری کی آواز سنی، تو دھیرے دھیرے وہاں اکھٹا ہوگئے۔ ان لوگوں کو بانسری کی آواز بہت بھلی لگی۔ ایک شخص نے بانسری والے سے پوچھا یہ کیا چیز ہے اور کیسے بنائی جاتی ہے؟ اس نے کہا یہ بانسری ہے اور بانس سے بنائی جاتی ہے۔ اگر تم مجھے بانس لا کر دے دو، تو مَیں تھوڑی دیر میں ایسی ہی بانسری بنا دوں گا۔ شرط یہ ہے کہ تم اتنا بڑا بانس لاؤ گے جس سے دو بانسریاں بن سکیں۔ مَیں ایک بانسری تم کو دے دوں گا اور دوسری اپنی اُجرت سمجھ کر اپنے پاس رکھ لوں گا۔ پورے گاؤں میں بانس کی کوٹھی یعنی بنسواڑی (وہ جگہ جہاں کثرت سے بانس ہو) صرف اس گاؤں کے مکھیا کے یہاں تھی۔ وہ شخص مکھیا کے پاس گیا اور اُن سے مانگ کر بانس لے آیا۔ بانسری والے نے ایک بانسری بنا کر اُسے دے دی۔ باقی بانس اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد ایک دوسرا شخص مکھیا کے پاس یہاں بانس مانگنے گیا۔ مکھیا نے اسے بھی بانس دے دیا۔ پھر یکے بعد دیگرے بہت سے لوگ مکھیا کے یہاں بانس لینے کے لیے پہنچے۔ مکھیا نے ان سے پوچھا، مَیں تو بانس دیتے دیتے پریشان ہوگیا ہوں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس کو دیکھو وہ آج بانس لینے کے لیے چلا آ رہا ہے۔ ایک شخص نے مکھیا سے کہا، ہمارے گاؤں میں ایک بانسری بجانے والا آیا ہے، جو بانس میں سوراخ کرکے بانسری بناتا ہے، جو بانس لاتا ہے، اُسی کو وہ بانسری دے دیتا ہے۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ اور کئی لوگ وہاں آکر کھڑے ہوگئے اور مکھیا سے کچھ کہنے والے تھے کہ مکھیا ان سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔ اچھا، آپ لوگ بھی بانسری بنوانے کے لیے بانس لینے آئے ہیں۔ ان لوگوں نے اثبات میں سر ہلادیے۔ مکھیا نے کہا، تم لوگوں کو بانس دیتے دیتے میں تو عاجز ہوگیا ہوں۔ اب ’’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنی بنسواڑی میں آگ لگا دی۔ کچھ دیر کے بعد تمام بانس جل کر راکھ ہوگئے۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 286 سے انتخاب)