عوض نور، ہم شرمندہ ہیں

یہ عوض نور ہے۔ نوشہرہ کی ننھی کلی۔ عمر صرف نو سال، اور قاتلوں نے اس کو جب قتل کیا ہوگا، تو یقینی طور پر کوئی لالچ دیا ہو گا، اور یہ پھول جیسی بچی سمجھ بیٹھی ہوگی کہ لے جانے والا اس کا خیر خواہ ہے، لیکن اس نے اس بچی کو اس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا کہ عقل حیران ہے کہ کیسے کوئی انسان ایسے ایک پھول کو مسل سکتا ہے؟ آپ اس بچی کے چہرہ کو غور سے دیکھیں، کیا یہ ریپ، جنسی زیادتی، اغوا، قتل، ڈبونے جیسے الفاظ سے بھی واقف ہوگی؟ کیا اس کی مسکراہٹ نے کبھی تصور بھی کیا ہو گا کہ کبھی کوئی حیوان یا درندہ بھی اسے اس برے طریقے سے سانسوں کی ڈور سے آزاد کر سکتا ہے؟
قارئین، عرصہ ہوا ایک کالم لکھا تھا: ’’پاکستان کا ریپ۔‘‘ وہ بھی ایک ننھی کلی کے حوالے سے تھا، لیکن اخبار نے یہ کہہ کے شائع نہیں کیا تھا کہ کالم کا عنوان بہت سخت ہے۔ مجھے بتائیے ،کیا ایسی ننھی کلیوں کو مسل دینا پورے معاشرے کا ریپ نہیں ہوتا؟ کل کو اسی بچی نے ماں بننا تھا، ایک نسل کو پروان چڑھانا تھا، تو کیا یہ ایک پوری نسل کا ریپ نہیں ہوا؟
ابھی تفتیش ہو رہی ہے ایک قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔ ریپ ہوا یا نہیں، تشدد ہوا یا نہیں، طے ہونا باقی ہے، اور قاتل کو چہرے پہ نقاب ڈال کے سامنے لانے کی ایک تصویر سامنے آئی ہے۔ کیا ایسے درندوں کے چہرے واضح نہیں ہونے چاہئیں؟ کیا ایسے لوگوں کا چہرہ سب کے سامنے دکھانا نہیں چاہیے کہ جس جس نے اس درندے سے زندگی میں ایک لفظ بھی کلام کیا، وہ اپنی اس کلام کرنے کی معافی مانگے۔ جس جس نے اس حیوان کے ساتھ ایک قدم سفر کیا، وہ اس کے ساتھ چلنے پہ ربِ کریم سے معافی کا خواستگار ہو کہ مولا تو نے کس حیوان کے ساتھ مجھے چلنے دیا۔اس کا چہرہ تو بنا کسی نقاب کے سب کے سامنے دکھانا چاہیے، پوری دنیا کو کہ جس جس نے بھی اس ابلیس کے ساتھ کھانا کھایا، وہ اپنے اس شخص کے ساتھ لیے گئے لقموں پہ پشیماں ہوسکے کہ کس شخص کا ساتھ انہیں کھانا نصیب ہوا تھا۔
حیرت ہے اس معاشرے پہ جو ایسے واقعات کو چند دن بعد بھول جاتا ہے۔ ’’زینب الرٹ بل‘‘ آ گیا ہے، سب شادیانے بجا رہے ہیں، لیکن معاشرے کے اندر سے اس حیوانیت کو کیا صرف ایسے بل لانے سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنسی درندے ایسے بل لانے سے دندنانا چھوڑ دیں گے؟ کیا ایسی کلیاں مسلی جانے کا عمل رک جائے گا؟ حیرت ہے کہ ہم صرف ایک بل لانے کو اپنی کامیابی تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اگر ان جنسی درندوں کو قابو کرنے کے لیے بل کافی ہوتے، تو اب تک کتنے قانون بنے جن پہ عمل درآمد ہونا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
جناب! سزا و جزا کا تصور عملی طور پہ نافذ کیجیے۔ آپ ایسے درندوں کو صرف سزائے موت نہیں بلکہ ایسی دردناک سزائیں دے کر مارئیے کہ جو پیچھے ایسی سوچ اپنانے کا سوچیں بھی، تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ آپ اس قدر سزا کا نظام تیز رفتار کر دیجیے کہ مجرم پکڑا جائے اور چند دن بعد تفتیش مکمل کر کے اس کو ایسی سزا دیجیے کہ لوگ اس کی قبر پر سنگ زنی کرتے رہیں۔
ہمارا معاشرہ بظاہر ترقی کے دعوؤں کے باوجود اس ابتری کی طرف جا رہا ہے کہ الاماں! اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبلِ قریب میں جنگل کے معاشرے کی طرح اندھیرا ہوتے ہی لوگ اپنی کلیوں کو سینے سے لگا کے کھڑکیاں دروازے بند کرنے کو دوڑیں گے۔ یہ معاشرہ ہماری بے حسی کی تصویر ہے۔ ہم نہ جانے کیسے اس طرح کے واقعات کو ایک ذات پہ رونما ہونے والا حادثہ سمجھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں؟ ہم سے یہ ننھی کلیاں روز قیامت سوال کریں گی کہ ہم کو پُرامن معاشرہ دینے کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ ہمیں معاشرے میں سکون و محبت کا گہوارا ہونے کا وعدہ بھی آپ کے جھوٹے وعدوں میں شامل تھا۔ ہم ایک زینب کے بعد اگلی زینب کا انتظار کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم ایک عوض نور کے مسئلہ کے بعد اخبارات میں کھل کے بیانات دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پہ ٹسوے بہاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہتری نہیں بلکہ اپنے عہدے، اپنی حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے پاپڑ بیلتے ہیں، لیکن اگر واقعی کوئی خلوص سے کام کرنا چاہے، تو نہ جانے ایسے سانحے پہ بیان دینے کی بھی اس میں طاقت کیسے رہتی ہے اور وہ اُٹھ کھڑا کیوں نہیں ہوتا ایسے ظالموں کے چہروں سے نقاب اتارنے کو اور انہیں معاشرے میں عبرت کا نشان بنانے کو؟
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔