پاکستان میں انسان ٹی وی سے اور خاص طور پہ نیوز چینلوں سے اور بالخصوص کرنٹ افیئرز ٹاک شوز سے جتنا دور رہے، اُس کا نہ صرف بی پی ٹھیک رہتا ہے بلکہ شوگر لیول بھی نارمل رہتا ہے، اور وہ سکون کی نیند سوتا ہے۔ شومئی قسمت، اگر آپ کی دلچسپی حالاتِ حاضرہ میں ہے اور اس پر طرہ یہ کہ آپ باقاعدگی سے کرنٹ افیئر زپروگرام دیکھتے ہیں، تو پھر آپ کو دواؤں کی ضرورت بھی رہے گی، جن میں بلند فشار خون، شوگر، ذہنی سکون، درد کش ادویات ہوسکتی ہیں۔ آپ کو باقاعدہ سے ڈاکٹرز کے ساتھ ملاقاتوں کی ضرورت بھی رہے گی۔ کیوں کہ وطنِ عزیز پاکستان میں جس طرح کے کرنٹ افیئر شوز ہو رہے ہیں، وہ اچھے بھلے انسان کو بھی چیختا چلاتا انسان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ آپ کو حالاتِ حاضرہ کے کسی بھی پروگرام میں سوائے اطلاعات، معلومات، خبروں کے باقی سب کچھ ملتا ہے۔ کوئی ناکام سے ناکام سیاست دان بھی چند ٹی وی شوز میں شرکت فرما کے مشہور اور کامیاب سیاست دان بن سکتا ہے۔ کوئی ایسا اینکر جسے کوئی پوچھنے کو تیار نہیں وہ اونچی آواز میں چیخنا چنگھاڑنا جانتا ہو، ہاتھ اوپر نیچے کرکے سکرین پہ چھانے کا ہنر جانتا ہو، حاضرین کو لڑانے کی اضافی خوبی اس کے اندر موجود ہو، تو اُسے کامیاب اینکر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
فیصل واوڈا صاحب خبروں میں رہنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ کبھی ہیوی بائیکس پہ کراچی کی سڑکوں پہ گھومتے نظر آتے ہیں، تو کبھی اپنے بیانات کی وجہ سے میڈیا پہ چھائے رہتے ہیں۔ حالیہ تنازعے میں ’’بوٹ‘‘ اُن کی وجۂ شہرت بن گیا ہے۔ بوٹ کے حوالے سے ان کا شائد فارمولا یہ رہا ہے کہ
بدنام اگر ہوں گے، تو کیا نام نہ ہو گا
یہ سوچ کے شائد انہوں نے اخلاقیات کو ایک جانب رکھا، اور بداخلاقی کے گھوڑے پہ زین کسی اور ٹی وی شو میں پہنچ گئے۔ بوٹ چاٹنے سے لے کر بوٹ پالش تک کی اصطلاح ہم پڑھتے ضرور رہے ہیں۔ سنتے بھی رہے ہیں لیکن یہ اصطلاح دیکھی بہرحال پہلی دفعہ ہے۔ اور یہ حکومتی وزیر کی طرف سے ایک ایسی حرکت تھی، جو کسی بھی طرح قابلِ توصیف نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ اور مقامِ افسوس ہے واڈا صاحب کے لیے کہ ان کے اس بیان اور اس عمل پہ ان کی اپنی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی۔ دبے دبے الفاظ میں ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ان پہ تنقید کی جا رہی ہے۔ مستقبلِ قریب میں وہ وزیرِ اعظم کے سامنے اپنی صفائیاں بھی پیش کرتے نظر آسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک مقامی سطح کے راہنما تو یہ کہتے نظر آئے کہ ہمیں قیادت کے بیانات کا خمیازہ ووٹر کے سامنے بھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں کون کس بوٹ کے ارد گرد پھرتا ہے، اور کون کس بوٹ کے تسموں کو بھی ہاتھوں سے تھامے بیٹھا ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن فیصل واوڈا صاحب نے ٹی وی چینل پہ اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے بے تکی منطق لڑائی جو اُلٹی پڑگئی۔ وہ نوجوان ہیں، اوپر سے وفاقی وزیر بھی ہیں، جذباتی ہونا تو لازم ہے، لیکن بہرحال اپنی بے سروپا باتوں کی وجہ سے وہ ایک ایسے ادارے کی عزت و وقار مجروح کرنے کا سبب بن گئے ہیں جو تمام تر تنقید کے نشتر سہنے کے باوجود بہرحال منظم ترین ہے۔ کچھ ہو نہ ہو، لیکن لوگوں کے دلوں میں اس ادارے کا مقام بڑھ رہا ہے، کم نہیں ہو پا رہا۔ لہٰذا جب آپ اپنی بچکانہ حرکتوں سے اس ادارے کی بے توقیری کرتے ہیں، تو پھر عوام تو دور قمر زمان کائرہ جیسے گھاگ سیاست دان بھی آپ کی ایسی کلاس لیتے ہیں کہ آپ کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ یہ ایک پروگرام نہیں تھا، بلکہ ایک ادارے کے کردار پہ سوالیہ نشان لگانے کی کوشش تھی۔
واوڈا صاحب نے نشان تو لگایا اس بوٹ کے ساتھ ہے، لیکن ہو سکتا ہے انہیں مٹانا خود اس نشان کو ایسے پڑ جائے جیسے وہ فرما رہے تھے۔
پاکستان کی سیاست کا چال چلن اُس الہڑ مٹیار کی طرح ہے جو ہر اجنبی سے آنکھ مٹکا اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ وہ آنکھ مٹکا کرتے ہوئے بعض اوقات اس حد تک چلی جاتی ہے کہ اپنا یا اپنے خاندان کا بھی نہیں سوچتی۔ کچھ ایسا ہی شائد واوڈا صاحب کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ انہوں نے نہ تو اپنا مقام سوچا، کہ وہ ایک وفاقی وزیر کے عہدے پہ فائز ہیں۔ اب یقینی طور پر راقم الحروف کی طرح بہت سے پاگل ان کا اس عہدے تک پہنچنا ہی غلط سمجھتے ہیں۔
دوسرا، وہ اس حقیقت کو بھانپ نہیں پائے کہ ان کے ساتھ دو گھاگ سیاست دان بیٹھے ہوئے ہیں جو یقینی طور پر ان کے اس جذباتی قدم کے سامنے چپ بیٹھنے والے نہیں تھے۔ ایسا ہی ہوا قمر زمان کائرہ نے واوڈا صاحب کی ایسی درگت بنا ڈالی کہ الامان و الحفیظ۔
تیسرا وہ نہ جانے کس زعم میں خود کو پاکستان کا ان داتا سمجھ بیٹھے کہ اس قدر ذلت آمیر فیصلہ کیا، جس کے بعد نہ تو ان کی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، نہ ان کی حکومت۔ یہ غصہ نہ جانے تھا کس پہ، اور نکلا کس پر؟ آپ کو اگر آنے والے دنوں میں ٹی وی چینلوں کے مرکزی دروازوں پہ سیاست دان تلاشی دیتے نظر آئیں، تو حیران نہ ہوئیے گا کہ اب سٹوڈیو میں جانے سے قبل جامہ تلاشی کا امکان ہے کہ کہ تھیلے میں کچھ بوٹ تو نہیں ڈالے ہوئے؟
بوٹ چاٹنے تک تو چلو پھر بھی کچھ فائدہ ضرور نظر آتا ہے، شائد واوڈا صاحب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہوئے وہی تلاش کر رہے تھے۔ لیکن بوٹ پڑنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ دماغ کی طنابیں ہل سکتی ہیں۔ اور دماغ کی درستی کے لیے سر پہ پڑنے کے لیے یہ بوٹ آٹو میٹک طریقۂ کار اپناتا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ یہاں بوٹ چاٹنے کا طعنہ دینے والے یہ سوچنا گوارا بھی نہیں کرسکتے کہ یہ بوٹ ہی تو ملکی سلامتی کی ضمانت ہے۔ جب ووٹ چاہیے تھا، اور ’’مَیں دیوانہ، مَیں دیوانہ‘‘ کا نغمہ سناتے اِدھر سے اُدھر بھاگتے دوڑتے تھے۔ منتیں ترلے بھی حیران تھے کہ ہمارا واسطہ کس سے پڑ گیا ہے؟ اور شیکسپیئر کو بھی مات دیتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ووٹ کا لازمی قرار دیتا فلسفہ ارشاد فرمایا جا رہا تھا۔ اپوزیشن پہ طنز کے نشتر برسائے جا رہے تھے اور جب ووٹ مل گیا، تو پھر اسی اپوزیشن پہ تنقید کے نشتر اور بوٹ چاٹنے کے طعنے، چہ معنی دارد؟ بھئی، یہ قصہ کیا ہے؟ کہیں غصہ یہی تو نہیں کہ اپوزیشن نے ووٹ دے کر سیاست چمکانے کا موقع واوڈا صاحب سے چھین لیا؟ ہیں جی، ایسا ہی ہے کیا؟
پاکستان میں سیاسی گھمن گھیریوں میں سب کچھ ’’خیر صلا‘‘ کے مصداق اگر ایوان میں بل پاس ہونے لگیں، تو ہمارے سیاست دانوں کے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے؟ تو واوڈا صاحب کو بھی شائد یہی غصہ ہے کہ بل میں حکومت کو حمایت کیوں مل گئی؟ اور انہوں نے بوٹ دکھانا شروع کر دیے۔ لیکن تھوڑا محتاط رہیے، بوٹ دکھاتے دکھاتے، بوٹ کھانے بھی پڑسکتے ہیں۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔