ایک بلا تو تھی ہی دوسری اور پیچھے پڑ ی۔ ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت آگئی۔ ایک امرِ عجیب کے بعد دوسرے امرِ عجیب کے ظاہر ہونے کے عمل پر بولتے ہیں۔ جب کسی شخص پر ایک عیب لگے اور وہ اس کی صفائی نہ دے پائے اور صفائی دینے کی کوشش میں دوسرا الزام اس کے سر آجائے، تو بھی اس کہاوت کا استعمال کرتے ہیں۔
اس کہاوت کے پس منظر میں معمولی فرق کے ساتھ کئی لوک کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک حسبِ ذیل ہے: ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص اس بات کا عامل تھا کہ مردے کو اپنے فسوں اور منترکے وسیلے سے جگا کر اس کے گھر کا تمام حال پوچھ کر اس کے گھر والوں کو بتا دیا کرتا تھا، یعنی جو بات اس کے خاندان والوں کو اس سے دریافت کرنی ہوتی تھی، یہ ہم زاد کے وسیلے سے پوچھ دیا کرتا تھا۔ جب یہ شخص مرنے لگا، تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ عمل بتا دیا۔ شاگرد نے بطورِ آزمائش قبرستان میں جاکر ایک مردے کو جگایا، مگر پھر قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔ تب ناچار ہو کر اس نے اپنے استاد کو منتر کے وسیلے سے جگایا کہ وہ اسے قبر میں داخل کرنے کا منتر دوبارہ بتادیں گے۔ اس طرح اس بلا سے پیچھا چھوٹے گا، مگر ہوا یہ کہ استاد بھی اس عالم میں کچھ نہ بتاسکے۔ پہلے تو ایک مردہ ساتھ تھا، اب دو مردے ساتھ ہوگئے۔ اُس وقت اُس نے گھبراکے یہ کلمہ کہا کہ ’’یک نہ شُد دو شُد۔‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 305 سے انتخاب)