آج سے عرصہ پہلے ہمارے معاشرے میں محنتی طلبہ کی کمی نہ تھی، جنہوں نے اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر اعلیٰ مقام حاصل کیا، جب کہ فی زمانہ وطنِ عزیز کے تعلیمی معیار اور پست حالت کو دیکھ کر انسان انتہائی مایوس ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب بھی ہم سب جانتے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم خصوصاً نوجوانوں کے لیے جو اصول چھوڑے تھے، یعنی کام، کام اور کام، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا طرزِ عمل فی زمانہ قائد کے اس موٹو کے بالکل اُلٹ ہے۔ حالاں کہ کسی قوم کی ترقی کا راز اس کے افراد کے عملِ پیہم، دیانت اور خصوصاً نوجوان نسل کی محنت، منزلِ مقصود کا صحیح تعین اور بہتر رہنمائی پر ہوتا ہے۔ نوجوان طبقہ ایک قوم کی آرزوؤں اور تمناؤں کا امین ہوتا ہے، اور قوم کے مستقبل کی توقعات انہیں سے وابستہ ہوتی ہیں، لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج کل مملکتِ خداداد پاکستان کے نوجوان اپنا قیمتی وقت بے ہودہ مشاغل میں ضائع کرتے ہیں۔
پرانے وقتوں میں بہت کم نوجوان تاش، تمثیل بینی، سینما بینی اور دیسی کھیل کھیلنے میں وقت کے قیمتی لمحے ضائع کرتے۔ اس وقت ایک اچھی بات یہ تھی کہ وہ یہ مشاغل بزرگوں کے ادب اور ڈر کی وجہ سے چوری چھپے کیا کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدریں بھی بتدریج ختم ہونے لگیں، بے کار مشاغل میں تبدیلی بھی ہوئی اور ان میں اضافہ بھی ہوا۔ غور کا مقام ہے کہ ان بے کار مشاغل میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کے طلبہ تک دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ ہیں موبائل فون کے مشاغل جس میں ’’فیس بک‘‘ سرِفہرست ہے۔ بچے موبائل فون میں مختلف قسم کھیل کھیلنے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ تعلیم، ہوم ورک اور اساتذہ صاحبان کے پڑھے ہوئے اسباق کو طاقِ نسیان میں رکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ان مشاغل کی وجہ سے وہ عالمِ تخیل میں نہ جانے کن کن رنگین وادیوں کے سیر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بے معنی مشاغل کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل سے سرگرمیِ عمل، محنت اور دیانت کا جذبہ ختم ہوگیا ہے۔ جب امتحان سر پر آپہنچتا ہے، تو یہ تماشا دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ امتحان میں جگہ جگہ بک سٹالوں پر پاکٹ سائز کے خلاصہ جات اور مائیکرو فوٹوسٹیٹ کاپیاں ٹنوں کے حساب سے فروخت ہورہی ہوتی ہیں۔ امیدوار؍ طلبہ یہ کاپیاں اور خلاصے دھڑا دھڑ خرید رہے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ محنت اور دیانت کی بجائے مختصر اور آسان راستہ اختیار کرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے! یہی وجہ ہے کہ آج کل کے بیشتر گریجویٹ تک نوجوانوں کے تعلیمی معیار کو دیکھ کر انسان بہت مایوس ہوجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ طلبہ امتحان کی تیاری کے لیے رت جگے کرکے سخت محنت کرتے۔ اس وقت امتحانات میں اَن فیئر مینز کے کیسز بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اُس وقت ٹیلنٹ بھی تھا، اطمینان بھی اور روزگار کے ذرائع بھی تھے۔
جو لوگ کمرِ ہمت باندھ کر میدا نِ عمل میں اُترتے ہیں، کامیابی یقینا ان کے قدم چومتی ہے، لیکن جو لوگ کاہل اور پست ہمت بن کر زندگی کو روح پرور پھولوں کا سیج سمجھ کر شارٹ کٹ کے ذریعے کامیابی حاصل کرتے ہیں، زندگی میں ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔