بمبئی میں کوئی کسی کا نہیں ہے اور بمبئی میں ہر چیز بکاؤ ہے۔ پھر وہ قابلیت ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں اپنا سامان ہو یا فن، فروخت کرنے کے لیے ہوشیار سیلز مین ہونا ضروری ہے۔ مَیں نے 80ء کے چلتے ایک ایک گانے کا معاوضہ دس دس ہزار لیا اور بڑے فخر سے یہ کہابھی ہے۔ برنارڈ شا فخر سے کہتے تھے کہ مَیں اپنے ایک ایک لفظ کی قیمت ایک ایک پونڈ لیتا ہوں۔ اگر مَیں ایک ایک گیت کے ہزار روپے لیتا ہوں، تو سگریٹ کے ایک کش میں گانا بھی مکمل کرکے دیتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے میرے ایک ایک کش کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔
وقت وقت کی بات ہوتی ہے، اور میں وقت کے پڑھائے ہوئے کسی سبق کو غلط نہیں ثابت کرتا بلکہ عین اس کے مطابق ہی کام کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں ایک وقت کی بات ہے کہ ایک مارواڑی سیٹھ میرے پاس آئے جنہیں اُردو بالکل بھی نہیں آتی تھی اور انہوں نے کہا: ’’ساحرؔ صاحب! اماری فلم کے لیے آپ کے گیت مانگتا۔‘‘ میں نے کہا: ’’سیٹھ! تم امرے گیت کی قیمت نہیں دے سکتا۔‘‘ سیٹھ نے کہا: ’’کتنا لے گا؟ ہجار، دو ہجار!‘‘ مَیں نے کہا: ’’ سیٹھ! مَیں نے کہا نہ، تم امارے گیت کی قیمت نہیں دے سکتا۔‘‘ سیٹھ نے پھر کہا: ’’ایک گیت کا کیا لے گا؟دس ہجار!‘‘ مَیں نے سگریٹ کا گل جھٹکتے ہوئے کہا: ’’جی ہاں، دس ہزار!! دے گا؟‘‘ سیٹھ نے کہا: ’’ڈن(Done)‘‘
اس طرح، اُس وقت سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرے ایک گیت کی قیمت دس ہزار روپے بھی ہوسکتی ہے اور اُسی وقت سے یہ قیمت میں نے طے کرلی۔ اکثر مجھے یہ احساس بھی ہوتا رہا کہ مَیں نے شاعری کو روزی روٹی سے جوڑ کر ایک ایسے بازار میں بٹھا دیا ہے ،جہاں ہر وہ شخص اس کا جسم نوچتا ہے، جسے اس کی کوئی پرکھ ہی نہیں۔ لیکن مَیں نے اس بازار میں رہ کر بھی شاعری کو کبھی بازاری نہیں ہونے دیا بلکہ اس کو مقصدی بنانے کی حتی المقدور کوشش ہمیشہ کی۔
(ساحرؔ لدھیانوی کی خود نوشت سوانح ’’مَیں ساحرؔ ہوں‘‘ از ’’چندر ورما، ڈاکٹر سلمان عابد‘‘ مطبوعہ ’’بُک کارنر پرنٹرز اینڈ پبلشرز، جہلم‘‘ ستمبر 2015ء کے صفحہ نمبر 204 اور 205 سے انتخاب)