پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس شاہد فضل کریم اور جسٹس نذیر اکبر پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف غداری کیس کا ٹرائل مکمل کرتے ہوئے 17 دسمبر 2019ء کوجنرل (ر) مشرف کو پانچ بار سزائے موت سنا دی، اور اگر مشرف سزا سے پہلے انتقال کر جائیں، تو اس کی لاش تین دن تک ڈی چوک اسلام آباد میں لٹکائی جائے۔
خصوصی عدالت کے تین میں سے دو ججز نے جنرل (ر) مشرف کو سزائے موت کو مستوجب قرار دیا جب کہ ایک جج نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کو آئین پامال کیا۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ جنرل (ر) پرویزمشرف آرٹیکل چھے کے تحت سنگین غداری کے مرتکب ہوئے، اور ہم انھیں سزائے موت کا حکم سناتے ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ہم نے تین ماہ تک شکایات کا ، اس کے علاوہ جو ریکارڈ تھا اور جو دلائل تھے، ان تمام کا جائزہ لیا۔ ہم سنگین غداری کی شکایت کو منظور کرتے ہیں۔ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے مشرف کو گرفتار کرکے سزا پر عمل درآمد کرائیں۔
عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے آئین توڑا، اور وہ ا ٓئین کے آرٹیکل چھے کے تحت سزائے موت کے مستوجب ہیں ۔ ان کے اُوپر استغاثہ ثابت ہوا ہے۔ اس لیے انھیں سزائے موت سنا دی۔آرٹیکل چھے آئین کا محافظ ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع دیا گیا۔
جسٹس فضل کریم شاہد کے مطابق سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اپیل سے پہلے گرفتاری دینا ہوگی۔
سماعت کے آغاز پر پراسیکوٹر علی ضیا باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فردِ جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔
استغاثہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیرِ قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے۔ حکومتی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔
عدالت نے دورانِ سماعت استغاثہ کے شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
عدالت نے قرار دیا کہ مشرف کے شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔ ترمیمی چارج شیٹ دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر تین افراد کو ملزم بنایا، تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈر زکو بھی ملزم بنانے کی درخواست دے گی۔ غداری کا لفظ 1973ء کے آئین میں استعمال ہوا، تاہم اُس وقت غدارکا محدود ذکر کیا گیا تھا، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اس میں اضافہ کیا گیا، اور وہ اضافہ یہ تھا کہ آئین کو معطل یا عارضی طور پر معطل کرنے والا شخص، ایسے شخص کی مدد کرنے والا شخص بھی غدار تصور ہوگا اور یہی آئینی ترمیم سابق صدر مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے اور سزا پانے کی وجہ بنی۔
سابق صدر مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ نومبر 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت نے درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ بطورِ چیف 3 نومبر 2007ء کوملک کا آئین معطل کرکے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر پرویز مشرف کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ سماعت کا باقاعدہ آغاز 20 دسمبر 2013ء کو ہوا۔خصوصی عدالت نے مارچ 2014ء میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی۔ پراسیکوشن کی جانب سے اس کیس میں ثبوت فراہم کیے گئے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکمِ امتناع کے بعدخصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہ کرسکی۔ 2016ء میں عدالت کے حکم پرمشرف کا نام ’’ایگزیٹ کنٹرول لسٹ‘‘ (ای سی ایل) سے نکالے جانے کے بعد وہ بیرونِ ملک چلے گئے۔
عدالتی فیصلے پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے رد ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میری نظرمیں فیصلہ مشکوک ہے۔ مجھے اور نہ وکیلِ دفاع ہی کو سنا گیا۔ مَیں نے عدالتی کمیشن سے کہا تھا کہ میرا بیان یہاں آکر ریکارڈ کیا جائے، مگر اُسے نظر انداز کیا گیا۔ مجھے اور نہ وکیل صفائی کو اجازت ملی، کہ اپنی صفائی میں بات کر سکوں۔ مَیں عدالت کا احترام کرتا ہوں، مگر کچھ لوگوں نے میر ے خلاف ذا تی عداوت پر کیس کو سنا۔ آئین کے مطابق اس کیس کو سننا ہی نہیں چاہیے تھا۔کیس میں فردِ واحد کو ٹارگٹ کیا گیا۔ قانون کا غلط استعمال ہوا۔ مَیں عوام اور فوج کی حمایت کا شکر گزار ہوں۔
فوج کے ترجمان جنرل غفور نے فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا۔دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔ آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ مشرف نے دفاع پاکستان کے لیے جنگیں لڑیں۔ عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر ہوئی۔ مشرف فیصلے کے الفاظ انسانیت و اقدار کے منافی ہیں۔ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کیا۔ ملک کے ساتھ ادارے کی عزت و وقارکا دفاع کرنا جانتے ہیں۔
قارئین، تجزیہ نگار، سیاست دان، قانون دان اور طبقۂ اشرافیہ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہوئے دور کی کوڑیاں لارہے ہیں۔کسی کو انسانی حقوق یاد آرہے ہیں، تو کسی کو اعتراض ہے کہ آئین اور قانون کا غلط استعمال کیا گیا ۔ بیرسٹر اعتزاز حسن کہتے ہیں کہ جسٹس وقار سیٹھ کا باقاعدہ نفسیاتی معائنہ ہونا چاہیے۔ دوسرے قانون دان فیصلے کو کمزور اور قانون کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ’’رول آف لا‘‘ کی باتیں کرنے والے عمران خان کی تبدیلی سرکار نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
قارئین، بڑوں کی باتیں سننے پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ ایک شخص کا بھائی فوت ہوا۔وہ زار و قطار رو رہا تھا، اورلوگ انھیں تسلیاں دے رہے تھے، تو اس شخص (جس کا بھائی فوت ہوا تھا) نے کہا کہ مجھے اس کا افسوس نہیں کہ میرا بھائی فوت ہوا ہے، بلکہ مجھے ڈریہ ہے کہ موت (عزرائیل) نے میرے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔
بڑے بڑوں کو مشرف سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انھیں یہ ڈر ہے کہ عدالت میں انھیں سزا دینے کی ہمت پیدا ہو چکی ہے۔ کل کو انھیں لٹکانے کی باری بھی آسکتی ہے۔ کیوں کہ انھیں یقین ہے کہ آرٹیکل چھے ریڑھی والے پر نہیں بلکہ انہی پر لاگو ہوگی۔ عدالتی انقلاب سے کسی کو خوشی ہو رہی ہو یا پریشانی، یہ خاص اور بڑے آدمیوں کا کام ہے، وہ جانیں اور ان کا کام۔
تاریخ گوا ہ ہے کہ اگر فیصلہ کسی کے حق میں آئے تو اداروں کو درست تسلیم کیا جاتا ہے اور جب خلاف آئے، تو ہم اپنے آئینی اداروں کو معاف نہیں کرتے۔ حالاں کہ یہ تصور اب ختم ہوگیا ہے کہ کسی کا منتخب کردہ سربراہ (کسی ادارے کا) ممنون رہے گا۔ فیصلہ آنے کے بعد اب سابق صدر جنر ل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ تیس دن کا وقت ہے کہ وہ اپیل دائر کرے۔ اس کو فرد ِواحد یا کوئی ادارہ ریلیف نہیں دلواسکتا، یا غداری کے جرم میں سزائے موت سے نہیں بچاسکتا۔ یہ کام عدالت سے رجوع کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ عدالت ہی مشرف کو ریلیف دی سکتی ہے، یا سزائے موت سے بچا سکتی ہے۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔