ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم قومی طور پر سوچنے، سمجھنے اور مسائل و مشکلات کے ادراک و احساس سے تہی دست ہو چکے ہیں۔ ہم بحیثیتِ قوم ذہنی، فکری اور علمی لحاظ سے بانجھ ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی حادثہ ہو جائے۔ ہم وقتی طور پر رونے دھونے اور چیخنے چلانے پر اکتفا کرکے زندگی کی معمولات میں مگن ہو جاتے ہیں۔ آزادی کے ابتدائی آٹھ سالہ دورِ حکومت کے دوران میں جاگیر دار، بیورو کریٹ اور فوجی عناصر پر مشتمل سیاسی عناصر کی نااہلی اور خود غرضی کے نتیجے میں مارشل لا کا نفاذ ہو، یا 12, 13 سالہ مارشل لا حکومتوں کے اقدامات اور فیصلوں کے نتیجے میں سانحۂ مشرقی پاکستان ہو، یعنی صرف 23سال بھی ہم اپنے ملک کو متحد نہ رکھ سکے، اور اپنوں اور دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ اس کے بعد 72 سالہ تاریخ کے دوران میں بار بار مارشل لا اور درمیانی وقفوں میں بدعنوان سیاسی عناصر کے ہاتھوں ہماری قومی زندگی کی گاڑی صراطِ مستقیم کی پٹڑی پر نہ چڑھ سکی۔ پورا معاشرہ شکست و ریخت اور افراتفری کا شکار ہے، اور ہمارے نہایت بد نما اور مکروہ معاشرتی رویے آئے روز کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہو کر ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، لیکن 22 کروڑ عوام میں موجود ذہنی، فکری اور علمی قیادت کے لیے حرام ہو کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں، سوچیں اور غور و فکر کریں کہ وہ بنیادی عوامل کیا ہیں جن کے نتائج ہم بہتر سال سے بھگت رہے ہیں۔
اگر آپ ذرا غور و فکر سے کام لیں، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آجائے گی کہ ہمارا معاشرہ مادی ترقی، جاہ و منصب اور مال و دولت کے حصول کے لیے دیگر تمام اقدار و روایات اور روحانی و مذہبی اصولوں سے دست بردار ہو چکا ہے۔ بالائی طبقہ اقتدار کے ذریعے دولت اور دولت کے ذریعے اقتدار کے حصول کا کامیاب کھیل کھیل رہا ہے۔ درمیانی طبقہ، اونچے طبقے کو دیکھتے ہوئے اس کے نقش قدم پر چل کر آسائشات و خواہشات کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
قارئین، آپ نے اپنے خاندان اور گھر میں مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب بچہ چلنے پھرنے لگتا ہے، تو والدین کی زبان سے بے اختیار ان کی اس خواہش کا اظہار سامنے آتا ہے کہ میرا چاند ڈاکٹر بنے گا۔ میرا بیٹا فوج میں افسر بنے گا۔ خواہشات کا یہ سلسلہ آگے چل کر سکول اور کالج میں بچے کے سامنے مادی ترقی اور خواہشاتِ نفس کی ایک پوری دنیا سامنے رکھ دیتا ہے۔ سکول میں بچے کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ محنت کرکے نویں اور دسویں جماعت میں زیادہ سے زیادہ نمبر سکور کریں، تاکہ اس کو میڈیکل یا انجینئرنگ میں داخلہ ملک سکے۔ انٹری ٹیسٹ پا س کروانے کے لیے بے شمار جتن کروائے جاتے ہیں۔ ٹیوشن اکیڈمیوں کی بھاری اور ناقابلِ برداشت فیسیں ادا کی جاتی ہیں۔ پھر جب بچہ انٹری ٹیسٹ میں ناکام ہو جاتا ہے، تو والدین اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیوں کے بھاری اخراجات پورے کرنے کے لیے جائیدادیں بیچتے ہیں۔ آبائی رہائشی مکان فروخت کرتے ہیں۔ رشتہ داروں سے منت ترلے کرکے قرضہ حاصل کرتے ہیں، لیکن اپنے لاڈلے کو ڈاکٹر ،انجینئر اور بڑا افسر بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے، لیکن ان تمام قربانیوں، محنتوں اور کوششوں کے نتیجے میں جب بیٹا ڈاکٹر بنتا ہے، تو اس کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے۔ کہ میں اگر شادی کروں گا، تو صرف لیڈی ڈاکٹر سے کروں گا۔ ایک بار پھر بیٹے کی خواہش پوری کرنے کے لیے والدین ایک اور مشکل اور سنگلاخ چوٹی سر کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کیوں کہ ایک تو لیڈی ڈاکٹر کا ملنا کوئی آسان کام نہیں، اگر مل بھی جائے، تو شرائط اتنی سخت کہ والدین کو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں، لیکن بچارے والدین جب یہ چوٹی بھی سر کر لیتے ہیں، تو بیٹا مع اپنی بیوی الگ رہائش اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور والدین کے لیے اب تک کی صعوبتوں کے مقابلے میں یہ مرحلہ انتہائی دلخراش اور المناک ہوتا ہے۔ ہزاروں خواہشوں کی تکمیل کے لیے زندگی بھر جو کھٹنائیاں برداشت کی تھیں، وہ ایک سراب ثابت ہوتی ہیں۔ بیٹا اور بہو بوڑھے والدین کو اکیلا چھوڑ کر اپنا کیرئیر بنانے کے لیے زندگی کی دوڑ میں بگٹٹ دوڑنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں اور دلوں میں یہ احساس تک پیدا نہیں ہوتا کہ بچپن سے لے کر جوانی تک ان دو ہستیوں نے کتنی مشقت، تکلیف اور محنت برداشت کرکے ہمیں اس مرحلے تک پہنچایا۔
کیا اس سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب نہیں کہ مادی ترقی اور مال و دولت کے حصول نے ہماری آنکھوں پر وہ سیاہ پٹی باندھ رکھی ہے کہ ہم اپنے برے بھلے کی تمیز سے اندھے بن گئے ہیں؟
کیا ہمارانظامِ تعلیم جو سراسر صرف مادی ترقی کے تصور پر استوار ہے، نظرِ ثانی کی ضرورت نہیں؟
قوم کی تشکیل تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے، اور قوم کے لیے ایسے افراد کی تیاری سب سے اہم اور مقدم فریضہ ہے کہ وہ قومیت کا شعور رکھتے ہوں۔ انسانیت کا درد رکھتے ہوں۔ قومی خوداری اور عزت نفس کا جذبہ رکھتے ہوں۔ خاندانی اور خونی رشتوں کا پاس لحاظ رکھتے ہوں۔ معاشرتی آداب و روایات پر کاربند ہوں۔ قانون کی پاس داری اور معاشرتی نظم و ضبط کو تسلیم کرتے ہوں۔ ان تمام آداب و روایات اور اخلاق و کردار اور ذہن و فکر کی سلامتی کی تشکیل کے بعد آپ اپنی قومی ضروریات کے مطابق افراد کے لیے مختلف پیشہ ورانہ خدمات کے لحاظ سے پیشوں کی تقسیم کا نظام بنا سکتے ہیں۔
آپ کے سامنے جاپان کی مثال پیش کرنا نامنا سب نہ ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ جاپان دو عظیم جنگوں کی تباہی و بربادی کے بعد آج ترقی یافتہ قوموں کی صفِ اول میں کھڑا ہے۔ یہ تمام تر ترقی جاپان کے نظامِ تعلیم کی مرہونِ منت ہے۔ جاپان کوئی مذہبی ملک نہیں بلکہ ایک معنوں میں لادین اور سیکولر پارلیمانی جمہوری ملک ہے، لیکن آپ شاید یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ جاپان میں ابتدائی چار پانچ سال کی تعلیم میں ہماری طرح مختلف مضامین نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ ان چار پانچ سالوں کے دوران میں بچوں کو عملی آداب و روایات اور قومی اخلاق و کردار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا قومی رویہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ ان کو کھانے پینے، قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے، دوسروں کی خدمت، صفائی، گفتگو کے آداب اور تمام شائستہ انسانی رویے سکھائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے ایک دوست کا مشاہدہ اتنا مؤثر ہے کہ آپ کے ساتھ شیئر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمارے یہ دوست ذریعۂ معاش کے سلسلے میں غیر قانونی طور پر جاپان میں رہائش پذیر تھے۔ کافی عرصہ گزرا لیکن قانون کی گرفت سے آزاد رہے، لیکن ایک دن بد قسمتی سے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کار میں جار ہے تھے کہ گاڑی چلانے والے ساتھی سے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی سر زد ہوگئی اور پھر یہ ایک دم قانون کی گرفت میں آگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ رمضان کا مہینا تھا اور ہمارے یہ دوست ماشاء اللہ عبادت گزار اور فرائض کے پابند ہیں۔ جاپانی پولیس ہمیں ایک حراستی سنٹر میں لے گئی اور ایک کمرے میں بند کر دیا۔ عصر کی نماز کا وقت تھا۔ مَیں نے نگران سپاہی کو توجہ دلائی کہ ہماری عبادت کا وقت ہے۔ لہٰذا س کے لیے انتظام کیا جائے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ آپ اپنی عبادت کریں۔ کوئی مضائقہ نہیں، لیکن جب مَیں نے اس کو اشاروں کنایوں میں بتایاکہ ہماری عبادت کے لیے وضو اور طہارت ضروری ہے ۔ کافی سمجھانے کے بعد جب بات اس کی سمجھ میں آگئی، تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ میں اپنے دوسرے ساتھی کو بلاتا ہوں کہ وہ آپ کی نگرانی کرے اور مَیں خود آپ کے لیے وضو کا انتظام کرتا ہوں۔ پھر جیل کے دوران میں پورے عرصے میں پنج گانہ نمازیں بغیر کسی رد و کد اور رکاوٹ کے ادا کرتا رہا۔ سحری اور افطاری کے لیے خصوصی انتظام و اہتمام کیا گیا۔ اس نے کہا کہ یہ آپ کا قانونی حق ہے کہ آپ اپنی مذہبی فرائض بخوبی اور آسانی کے ساتھ ادا کریں۔
جاپانی قوم کی اس قانون پسندی اور شائستہ رویے کی جڑیں ان کے نظامِ تعلیم و تربیت سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہم جب اپنا جائزہ لیتے ہیں، تو سب سے پہلے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہم ایک مسلمان ملت ہیں۔ ہمارا ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو واضح دلائل و براہین پر مبنی ہے۔ ہمارے پاس زندگی گزارنے کا ایک بہترین لائحہ عمل اور ضابطۂ حیات ہے، جو قرآن و سنت کے مسلم اصولوں پر مشتمل ہے۔ اسلام جس کو ماننے اور تسلیم کرنے سے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں ایک ایسا نظام تعلیم و تربیت دیتا ہے، جو کسی غیر مسلم قوم کے پاس نہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس بہترین نظامِ تعلیم کو ترک کرکے لارڈمیکالے کے ایک ایسے نظامِ تعلیم کو اختیار کیا ہے جو اس نے انگریز قوم کے برصغیر پاک و ہند پر قبضے اور اپنی حاکمیت کو بر قرار رکھنے کے لیے تشکیل دیا تھا، اور اپنے لیے نچلے درجے کے اہل کار اور کلرک مہیا کرنے کے لیے نافذ کیا تھا۔ انگریز نے اس نظامِ تعلیم کو معاشی ضروریات کے ساتھ مربوط اور متعلق کرکے ہماری آئندہ نسل کو صرف پیٹ کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کا خوگر بنا دیا تھا۔ بقول اکبر الہ آبادی:
بی اے کیا نوکر ہوئے پنشن ملی اور مر گئے
غضب خدا کا، نظامِ تعلیم کے سلسلے میں آج بھی اکثر احکامات و ہدایات میں 1935ء کے ایکٹ کا ذکر ملتا ہے۔
تعلیم کے شعبے سے ہماری قومی دلچسپی اس واقعے سے بھی سامنے آتی ہے جو قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب ایوب خانی کابینہ نے حلف اٹھایا اور وزرا کو ان کے محکمے تفویض کیے گئے، تو اجلا س برخاست ہوا اور وزرا چلے گئے، لیکن معلوم ہوا کہ تعلیم کا محکمہ تو کسی کو نہیں دیا گیا۔ مَیں بھاگم بھاگ سیڑھیوں سے اتر کر یہ دیکھنے کے لیے دوڑا کہ اگر کوئی وزیر ملے، تو اس کو تعلیم کا محکمہ سپرد کروں۔ اتفاق سے ایک سن رسیدہ بوڑھا بنگالی وزیر ملا، اور میں نے محکمۂ تعلیم کو ان کے پلے باندھ لیا۔
یہ ہے تعلیم و تربیت کے نظام سے ہماری قومی عدم دلچسپی کا احوال۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کا سارا ذہین و فطین اور ٹیلنٹڈ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ میڈیکل، انجینئر نگ، فوج، مالی اداروں، ریونیو اور کسٹم کی طرف جا رہا ہے اور ذہنی طور پر کمزور اور بچا کچھا طبقہ شعبۂ تعلیم کے حصے میں آتا ہے۔
اوپر سے ایک اور ظلم اور حق تلفی اور اس محکمے کے ساتھ عدم التفات کی ایک اور صورت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ قومی بجٹ میں اس شعبے کے لیے نہایت کم رقم رکھی جاتی ہے۔ آج بھی بہت سارے قوم کے بچے بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ جن سکولوں کی عمارتیں ہیں، ان کے ہر کمرے میں 80 سے لے کر 100، 120 تک بچے پڑھنے پڑھانے کے بجائے شور مچاتے رہتے ہیں۔ سکول کے اندر کا ماحول تعلیم و تربیت کے لیے ناموزوں ، ناقص اور ہر لحاظ سے ناکارہ ہے۔ اساتذہ کو اپنے پیشے کی اہمیت، اِفادیت اور عزت و وقار کا کوئی احساس نہیں۔ ان کو اگر دلچسپی ہے، تو صرف اپنی تنخواہوں، مراعات اور الاؤنسز سے ہے۔ بہت کم ایسے افراد اس شعبے میں موجود ہیں، جو احساسِ ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں، لیکن لاکھوں میں ان چند افراد کی موجودگی کا کوئی فائدہ اور اثر سامنے نہیں آتا۔
یہ آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالیں، مریضوں کے ساتھ نامناسب سلوک، بھاری فیسیں اور ٹیسٹوں، ادویہ وغیرہ میں کمیشن کس چیز کی غمازی کرتا ہے؟
ابھی حال ہی میں وکلا برادری کا ڈاکٹروں پر منظم حملہ کیا عدم تربیت کا شاخسانہ نہیں؟
کیا یہ بڑے بڑے کرپشن سکینڈلز اس بات کا ثبو ت نہیں کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں روحانی اور اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ اگر نظامِ تعلیم میں عقیدے کی اصلاح، خوفِ آخرت اور اخلاق و کردار کی تشکیل کا کوئی نظام اور طریقہ ہوتا، تو اس قسم کے مظاہر سامنے نہ آتے۔
اب بھی ایسے لوگ اختیار و اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں، جن کے ذہن و فکر میں اللہ کے سامنے جواب دہی اور خوفِ آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ اور نہ وہ نظام تعلیم میں دینی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تعلیم و تربیت کا کوئی تصور رکھتے ہیں۔
پھر ایسے میں اصلاح کی کوئی امید پوری ہو، تو کیسے؟؟؟
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔