جوانی میں اس فقیر کو مطالعہ کے علاوہ دو کام اور بھی بہت مرغوب تھے۔ ایک شکار اور دوسرا بارش کے دوران میں لمبی ڈرائیو۔ میری تحویل میں سرکاری جیپ کے علاوہ کبھی کوئی کار وغیرہ نہ رہی، مگر دوست بہت بھی تھے، اور صاحبانِ کار بھی۔ کسی نہ کسی دوست کو راضی کرکے ہی بارش میں گھر سے نکلتے اور اکثر اوقات پشاور جاکر دم لیتے۔ ان دوستوں میں سرِفہرست صاحب کا اسم گرامی ’’خلیفہ ‘‘ تھا۔ وہ کیا کام کرتے تھے؟ وہ جوتیاں بناتے تھے، آپ اسے موچی ہی سمجھ لیجیے، لیکن وہ پروفیشنل نہیں تھے کہ دکان میں ایک جگہ ٹک کر بیٹھ جاتے۔ کبھی کبھی ایک آدھ جوڑا بنالیا اور بس۔ پھر اُن کے جوہرِ قابل کو والی صاحب کی مردم شناس نظر نے پہچانا۔ اُن کو پشاور صدر میں ایک مشہور چینی جفت ساز کے پاس بھیجا کہ اُن کے فنِ کفش دوزی کو صیقل کریں۔ دو سال اُس چینی کی شاگردی میں گزار کر واپس سیدو شریف آگئے۔ اب اُن کی ڈیوٹی یہ تھی کہ سال میں ایک بار والی صاحب کی خاطر گرمیوں کے لیے مناسب جوتوں کے دو جوڑے تیار کریں۔ پھر والی صاحب اکثر بیرونی ممالک کے دورے سے واپسی پر وہاں خریدے گئے بوٹوں میں خلیفہ سے اپنی پسند کی ترمیم و اضافہ کرواتے۔
اس لمبی تمہید کے بعد عرض ہے کہ اُن کے پاس 54 ماڈل کی ایک شیوی تھی۔ ہم، یعنی مَیں، خلیفہ اور ہمارے ایک مشترکہ دوست عبدالقیوم 40 روپیہ فی کس اکٹھا کرتے، اور لمبی بارش کا انتظار کرتے۔ بارش شروع ہوتے ہی ہم کار لے کر نکل پڑتے۔ یہ1960ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ بیس روپیہ کا پیٹرول پشاور تک آنے جانے میں خرچ ہوجاتا۔ دو روپیہ یومیہ میں سینما روڈ پر واقع اکبر ہوٹل میں تین چارپائیوں والا کمرہ ملتا۔ دس روپیہ میں ہم تینوں قصہ خوانی کے ایک فرشی نشست والے ہوٹل سے دو وقت کا کھانا کھالیتے۔ اُن دنوں پشاور کے اکثر ہوٹل، فلش سسٹم کے بغیر ہوا کرتے تھے۔ صدر میں دینز اور گرین اور سٹی میں رائل ہوٹل فلش سسٹم سے آراستہ تھے۔ باقی تمام سرائے اور ہوٹلوں میں ڈرائی سسٹم ہی چلتا تھا۔ اکبر ہوٹل کی چوتھی منزل پر لیٹرین بنے ہوئے تھے، جن کو روز صبح کے وقت خاکروب آکر خالی کرواتے۔ شہر میں گاڑیوں کی یہ ریل پیل نہیں تھی۔ اکا دُکا گاڑی ہی سڑک پر نظر آتی تھی۔ امن اور بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ ہم فردوس سے رات کے دو بجے پیدل چلتے، اور گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہوتے اکبر ہوٹل پہنچ جاتے۔ نہ پولیس کی ناکہ بندیاں، نہ اسٹریٹ کرائمز، نہ شناختی کارڈ کی جھنجٹ۔
شام کو قصہ خوانی کی رونق دوبالا ہوجاتی۔ پھولوں کی دکانوں پر موتیے اور گلاب کی خوشبوئیں اور خریداروں کا رش دیدنی ہوتا۔ چار آنے میں سفید موتیے کی لڑی خریدو، اور گلے میں یا ہاتھ میں ڈالو۔ جہاں مرضی بیٹھ جاؤ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
یادش بخیر، ایک دن سنہری مسجد کے قریب ہماری کار عین سڑک کے درمیان بند ہوگئی۔ مَیں اور قیوم اس بھاری بھرکم شیورلیٹ کو دھکے دے کر ہلکان ہو رہے تھے۔ صدر کی یہ مصروف ترین روڈ جو آج کل نظر آرہی ہے، بالکل سنسان تھی۔ اتنے میں چند مزدور سامنے سے آتے ہوئے ہماری مدد کو آئے، اور گاڑی کا دھکا دے کر اسٹارٹ کیا۔ آج آپ اگر ایسی صورت حال سے دوچار ہوجائیں، تو پلک جھپکتے ریلوے روڈ سے یونیورسٹی تک ٹریفک جام ہو جائے اور پولیس آپ کی گاڑی لفٹر سے اُٹھا کر تھانے لے جائے، اور آپ کا مفت میں چالان ہوجائے۔
ارزانی اور اشیائے خور و نوش کی فراوانی تھی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ کابل سے لایا ہوا انگور ایک روپیہ کے عوض ’’سیر‘‘ ملتا تھا۔ یہ ’’کلو گرام‘‘ وغیرہ کی نحوست ابھی نہیں آئی تھی، اور پرانے پکے باٹ چلتے تھے۔ ایک سو بیس روپیہ میں ہم پشاور میں دو دن گزار کر واپسی کا راستہ ناپتے۔
چارسدہ کے تحصیل بازار میں خلیفہ کے ایک موچی دوست گلاب دین اور فضل عظیم وغیرہ سے ملتے اور پھر آرام سے سوات آپہنچتے۔ یوں ایک بار پھر کسی لمبی بارش کا انتظار کرتے۔ پشاور کی خوب صورتی، صفائی اورپاکیزگی کو جلد ہی اغیار کی نظر لگ گئی۔ 1980ء کی دہائی سے اس پیارے شہرِ خوباں کی بربادی کا عمل شروع ہوا، جو آج تک جاری و ساری ہے۔ یہ شہر میلوں تک پھیل گیا۔ اس میں عظیم الشان پلازے، آرام دہ ہوٹل اور بڑے بڑے اسپتال بن گئے، اور اس کا چین، سکھ، امن اور آشتی کہیں گم ہوگئے۔ اب تو ہر قدم پہ یہ ڈر لگتا ہے کہ یہ کہیں زندگی کا آخری قدم تو نہیں۔ گندگی کے ڈھیر چاروں طرف نظر آرہے ہیں۔
ہم نے نہایت مجبوری اور جبری جلاوطنی کے تین مہینے اس شہر میں گزارے۔ ہم اپنے 1960ء والے پشاور کو ڈھونڈتے رہے، مگر وہ ہمیں کہیں نہ ملا۔
بذاتِ خود میں نے حیات آباد کے فیزٹو سے شہر کی طرف آنا بھی گوارا نہ کیا، اور واپسی کے روز تیزی سے اسی آسیب زدہ شہر کو عبور کیا۔ یہ تو ہمارا محبوب شہر نہ رہا۔ بے گناہ معصوم شہریوں، جاں باز فوجیوں اور دلیر پولیس جوانوں کی قتل گاہ۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔