جسمانی سزا اور بچے

پچھلے دِنوں کچھ پُرانے دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہورہی تھی، تو بات اساتذہ اور اُن کے روئیوں تک چلی گئی۔ ایک دوست نے اپنے بچپن کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ہمارا ایک نابینا اُستاد تھا جو جسمانی سزا دینے میں بہت مشہور تھا۔ کسی بھی بچے کی غلطی پر وہ اس کی انگلیاں پکڑ کر ڈنڈے سے بڑے زور سے مارتا۔ دسمبر اور جنوری کی سردیوں میں بھی اُس کا یہی معمول ہوتا تھا۔ حالاں کہ سردی میں ڈنڈے کی چوٹ سے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ سردی میں ایسا ہوا کہ اُستاد نے اُس بچے کو مارا جو اُستاد کی گھر سے سکول تک آنے میں رہنمائی کرتا تھا۔ بچے کو بہت غصہ آیا اور اُس نے اُستاد سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری صبح جب وہ اُستاد کو لے کر سکول آرہا تھا، تو راستے میں ایک نہر کے کنارے لے جا کر کہا کہ اُستاد جی رکشے میں بیٹھ جائیے۔ اُستاد نے جیسے ہی پیر اُٹھایا، تو سیدھا نہر میں جا گِرا۔ سردی میں نہر کے ٹھنڈے پانی میں اُستاد کی چیخیں نکل گئیں۔ وہاں موجود کسی ریڑھی والے نے اُستاد کو تو بچا لیا، لیکن شاگرد اپنا کام کر چکا تھا۔
یہ بات صرف ایک اُستاد تک محدود نہیں اور ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک دوست کا یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ اِس بات پر مسئلہ چل رہا تھا کہ کیوں اُس نے کلاس میں اُستاد کے ساتھ ہاتھا پائی کی؟ حالاں کہ ہمارا دوست قانون کا طالب علم ہے، اور سمجھ دار لڑکا ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں سکول اور حتیٰ کہ یونیورسٹی کا طالب علم ایسی حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے اُستاد جیسے معزز شخص کے ساتھ بھی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے؟ یہ بات صرف اُستاد تک بھی محدود نہیں، اور اکثر گھر میں بھی بچے بڑوں کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے ایسی حرکات کردیتے ہیں، جو مستقل مسائل کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہ جسمانی سزا ہی تھی جس نے یونیورسٹی میں قانون پڑھنے والے ایک طالب علم کو اُستاد کے مارنے پر مجبور کیا۔
قارئین، جسمانی سزا سے مُراد کوئی بھی ایسا کام ہے جو کو کسی بھی کام کی درستی یا غلطی کو سدھارنے کے لیے جسمانی تکلیف کی صورت میں کسی کو دی جائے۔ کئی ملکوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ اب بھی ایک معمولی چیز ہے، اور معمول کے مطابق دیکھنے کو ملتی ہے۔ جسمانی سزا صرف سکولوں اور مدرسوں تک ہی محدود نہیں بلکہ گھروں، جیلوں، ہسپتالوں وغیرہ میں بھی دی جاتی ہے۔
اِس بات میں کافی حد تک صداقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں جسمانی سزا کی شرح میں کمی آرہی ہے، لیکن پھر بھی اِس پر بات ہونی چاہئیں۔ کیوں کہ جسمانی سزا کا فائدہ کوئی نہیں اور نقصان انتہائی زیادہ ہے۔ بتدریج کمی آنے کے باوجود اب بھی اس کی شرح کافی زیادہ ہے۔ اکثر لوگ اسے ایک ضروری اور فائدہ مند کام سمجھتے ہیں اور معمول کے مطابق اپنے بچوں کو مارتے رہتے ہیں۔
نفسیات کے ماہرین کے مطابق تعلیم کے ماحول میں تو جسمانی سزا کا تصور بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اکثر اوقات جسمانی سزا ایسے مسائل کا باعث بج جاتی ہے جو مستقل ہوتی ہے۔ تادمِ آخر اُس کے اثرات رہتے ہیں۔ ذیل میں جسمانی سزا کے کچھ نقصانات بیان کیے گئے ہیں۔
٭ جب بھی بچے کو جسمانی سزا ملتی ہے، چاہے وہ جو بھی ماحول ہو، اُس سے بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا ایک قابلِ قبول حل ہے اور کسی بھی صورت میں تشدد کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے، کیوں کہ بچے وہ نہیں سیکھتے جو ہم اُنہیں بتاتے ہیں بلکہ وہی سیکھتے ہیں جو ہم اُنہیں دکھاتے ہیں۔
٭ جتنی زیادہ ایک بچے کو جسمانی سزا ملتی ہے، اُتنا زیادہ اُس کے اندر مستقل غصہ پیدا ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کو جسمانی سزا دے گا اور یہ خطرناک سلسلہ ایسا ہی جاری رہے گا۔
٭ کسی بھی غلطی پر جسمانی سزا ملنے کے بعد بچہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی اِس غلطی کا اثر صرف اسی مخصوص سزا تک محدود ہے، اور اسی کام پر صرف اُسے یہی سزا ہی مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ سزا کھانے اور اُس غلطی کے کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
٭ جسمانی سزا کی وجہ سے بچے کو مختلف جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے کہ ہڈی ٹوٹنا، زخم آنا، دانت ٹوٹنا وغیرہ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچے شرم اور ڈر کی وجہ سے اپنے زخم وغیرہ کو چھپا کر رکھتے ہیں اور آگے جا کر یہ مستقل مسئلہ بن جاتا ہے۔
٭ جسمانی سزا کی وجہ سے مختلف نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں جیسا کہ غصہ، چڑچڑا پن، ڈپریشن، ڈر، خودکشی کے خیالات وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نفسیاتی امراض کی وجہ بچپن کی خراب پرورش اور خاص کر جسمانی سزائیں ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہی عمر ہوتی ہے جب بچے کا دماغ ترقی کر رہا ہوتا ہے، اور اگر اِسی عمر میں بچے کے ساتھ برا سلوک کیا جائے، تو اُس کے اثرات مستقل ہوسکتے ہیں۔
٭ جسمانی سزا کی وجہ سے سکول کے ماحول پر بھی بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔ بچہ مختلف غلط عادات اپنا سکتا ہے جیسے کہ کلاس میں شیطانی کرنا، سکول سے بھاگنا، اُستاد کا غصہ دوسرے بچوں پر نکالنا اور اساتذہ کے ساتھ بد تمیزی کرنا وغیرہ۔
٭ جسمانی سزا کی وجہ سے بچے میں سکول، تعلیم اور اُستاد کے لیے نفرت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ آگے جاکر یہ صورتحال اور بھی مسائل کا باعث بن سکتی ہے جیسے کہ تعلیمی کارکردگی خراب ہونا، سکول اور اُستاد سے ڈرنا، تعلیم چھوڑنا، خود اعتمادی کا کم یا ختم ہونا وغیرہ۔
٭ جسمانی سزا کے مستقل اثرات کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ بچپن ہی سے جرم کرنے کا عادی ہوجائے اور کافی حد تک ممکن ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایک عادی مجرم بن جائے۔
٭ جسمانی سزا سے یہ بھی ممکن ہے کہ بچے کا احساس کمزور یا دھندلا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ خود کو مستقل طور پر غیر محفوظ سمجھنا شروع کریں۔ چوں کہ ہر انسان منفرد ہوتا ہے، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ سب بچوں پر جسمانی سزا کے یہی سارے اثرات ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بچے پر جسمانی سزا کا کچھ اثر نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بچے پر جسمانی سزا کے اِس کے علاوہ اور بھی اثرات ظاہر ہوجائیں۔ کیوں کہ جسمانی سزا کے اثرات اوپر بیان کیے گئے اثرات تک محدود نہیں ہیں۔ بیان شدہ اثرات میں اکثر ایسے ہیں جو مستقل طور پر بچے کی زندگی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، جو کہ کسی کی بھی زندگی کا رُخ بدل سکتے ہیں اور مستقل مسائل کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اِسی خطرے کو پیش نظر رکھ کر تمام اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ بچوں کی کسی بھی غلطی کی صورت میں اُنہیں جسمانی سزا کی بجائے دوسرے طریقوں سے سمجھائیں۔ کیوں کہ ممکن ہے کہ اُس کی غلطی پر اُس کو ملنے والی سزا کا اثر اُس کی غلطی سے کہیں زیادہ منفی، مستقل اور خطرناک ہو۔ جسمانی سزا اور ایسی دیگر منفی چیزوں سے بچ کر ہی ایک بچہ خوشگوار بچپن گزار کر اچھی طرح بڑا ہو کر اپنے خاندان، معاشرے ، قوم اور ملک کی ترقی اور خوشحالی میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔